Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Qur’aan Khatam for the deceased

Qur’aan Khatam for the deceased

Assalamu alaykum

Today on whatsapp we have family groups where many information is passed on easily. One of the things discussed is making eesale sawab for the deceased eg reading a quraan khatam for a family deceased where the paras are distributed amongst those that are willing to read happily. Will this permisible?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

Esaale-thawaab means to convey reward. That is to do some acts of worship, for example recite Qur’aan or give charity etc. and give the reward to someone, living or dead.

One can only convey rewards if he secures the rewards. If one did not secure the rewards for his deed, there is no point in him passing over his rewards. One can secure rewards only by doing the act of worship with sincerity and according to Shariah. If any of these two conditions are not fulfilled, the act will be futile.

One should not arrange gatherings for Esaale-thawaab as that could be an act of bid’ah (innovation). People are invited to such gatherings and expect people to attend. Invitees also regard it compulsory to attend such a gathering. If they do not attend, the host is offended. The invitee also presents himself to avoid offending the host. This is a clear indication that the purpose of attending such a gathering is regarded as compulsory or customary and therefore it is declared as bid’ah (innovation). Furthermore, the intention of attending such a gathering is actually to please the host, not to convey reward.

When an act is bid’ah (innovation) and lacks sincerity, one cannot expect to secure rewards. How can one then pass over rewards?

Arranging Esaale-thawaab through WhatsApp forums is analogous to arranging physical Esaale-thawaab gatherings. Members of WhatsApp groups may feel obliged to respond to the suggestion or at least carry it out or merely accept to carry it out to please members. It is obvious that such an attitude cannot secure rewards to be passed over to the deceased.

One may however advice through the WhatsApp to make Esaale-thawaab without actually arranging it and coordinating it through the forum. If anyone carries out an act of virtue by him/herself with sincerity and without it being a bid’ah, it is more likely it will be accepted and accrue rewards. This will in fact be beneficial for the deceased. [1]

And Allah Ta’āla Knows Best

Safwaan Ibn Ml Ahmed Ibn Ibrahim

Student Darul Iftaa
Limbe, Malawi

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

______________________ 

مسند أحمد ط الرسالة (42/ 299) [1]

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ الْقَاسِمَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا، فَهُوَ رَدٌّ ” (1)

__________

إسناده صحيح على شرط مسلم. عبد الرحمن: هو ابنُ مهدي(1)

 

صحيح مسلم (3/ 1343) – دار إحياء التراث العربي – بيروت  

وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ عَبْدٌ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ رَجُلٍ لَهُ ثَلَاثَةُ مَسَاكِنَ، فَأَوْصَى بِثُلُثِ كُلِّ مَسْكَنٍ مِنْهَا، قَالَ: يُجْمَعُ ذَلِكَ كُلُّهُ فِي مَسْكَنٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ

__________

[شرح محمد فؤاد عبد الباقي]

   ش (من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد) قد يعاند بعض الفاعلين في بدعة سبق إليها فإذا احتج عليه بالرواية الأولى يقول أنا ما أحدثت شيئا فيحتج عليه بالثانية التي فيها التصريح برد كل المحدثات سواء أحدثها الفاعل أو سبق بإحداثها وهذا الحديث مما ينبغي حفظه واستعماله في إبطال المنكرات وإشاعة الاستدلال به

 

دار الكتاب الإسلامي البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 21) –  

الحكم إذا تردد بين سنة وبدعة كان ترك البدعة راجحا على فعل السنة

 

احسن الفتاوی (7/7-296) – سعيد

۔۔الجواب: ۔۔۔ ہر قسم کا ثواب ميت کو پہنچايا جاسکتا ہے، مگر اس کے لۓ چند بنيادی اور اصولی شرائط ہيں، جب تک وہ نہ ہوں فائدہ نہيں ہوگا۔

 

ميت مسلمان اور صحيح العقيدہ ہو۔-

ايصال ثواب کرنے والا بھی صحيح العقيدہ مسلمان ہو۔-

ريا، نام و نمود ، شہرت اور لوگوں کے طعن و تشنيع سے بچنے کے خيال سے پاک ہو۔-

جو مال صدقہ وخيرات ميں ديا جاۓ وہ حلال طيب ہو، خبيث اور حرام نہ ہو۔-

اس مال ميں کسی غائب یا نابالغ کا حق نہ ہو۔-

تلاوت قرآن يا یا کسی دوسری عبادت پر کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہ ديا جاۓ۔-

یہ عبادات دنوں، کيفيتوں اور اقسام طعام کی تخصيص و قيود سے پاک ہوں۔-

یہ کھانہ اور صدقہ صرف فقراء اور مساکين کو ديا جاۓ، برادری اور اغنياء کو نہ ديا جاۓ۔-

 

مروج قرآن خوانی ميں مذکورہ شرائط کے فقدان کے علاوہ مندرجہ ذیل قباحتيں بھی ہیں

۔۔۔اس سے یہ عقیدہ بنتا ہے کہ ترک معاصی کی ضرورت نہيں، بعد ميں پساندگان خوانی کراکر بخشواديں گے۔

خوانی کرنے والوں ميں ايسے لوگ بھی ہوتے ہيں جنکو صحيح قرآن پڑھنا نہيں آتا، وہ غلط قرآن پڑھ کر مزيد اللہ کے عذاب کو دعوت ديتے ہيں۔

ايصال ثواب کے اس مخصوص طريقہ کا شریعت ميں کوئی ثبوت نہيں مگر لوگ اسکو ثابت سمجھ کر کرتے ہيں، لہذا بدعت ہے۔

 

بوجوہ مذکورہ ايصال ثواب کیلۓ مروج قرآن خوانی جائز نہيں، بلکہ ميت کيلۓ باعث عذاب ہونے کا اندیشہ ہے، اسی لۓ علماء نے لکھا ہے کہ ميت پر وصیت کرنا فرض ہے ہے کہ اسکی موت کے بعد ايصال ثواب کے اس قسم کے غیر شرعی طریقوں سے اجتناب کیا جاۓ۔

 

 (1/361)

۔۔۔ اولا تو مروج قرآن  خوانی ہی ايک رسم محض بن کر رہ گئی ہے، اگر ايصال ثواب مقصود ہے تو اس کے لۓ ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کرسکتا ہے، اجتماع کی کیا ضرورت ہے۔

 

 (1/362)

۔۔۔ فی نفسہ قرآن کریم کی تلاوت ایصال ثواب کیلۓ یا خیر و برکت کے لۓ بلا شبہ بہت اہمیت رکھتی ہے مگر آجکل لوگوں نے اسے رسم بنالیا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کے لۓ اجتماع کا اہتمام اور اسے ضروری سمجھنا اسی طرح دعوت وغیرہ کا التزام یہ سب امور بدعت اور ناجائز ہیں۔

 

۔۔۔ اپنے طور پر صدقات نافلہ یا تلاوت یا تسبیح و تہلیل وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچانا حدیث سے ثابت ہے البتہ ایصال ثواب کے لۓ اجتماع کا اہتمام اور اسمیں قیود و رسوم نیز اہل میت کی طرف سے دعوت کرنا یہ سب امور بدعت اور ناجائز ہیں۔

 

فتاوی رحیمیہ (2/203) – الاشاعت

رسمی قرآن خوانی

قرآن مجید پڑھ کر ايصال ثواب کرنا ہو تو جتنا ہوسکے قرآن پڑھ کر ایصال ثواب کردیں، یہ اسلاف کے طریقہ کے مطابق ہوگا اور اس ميں اخلاص بھی ہوگا اور ان شاء اللہ مردہ کو فائدہ ہوگا، رسمی قرآن خوانی اسلاف سے ثابت نہيں۔ شامی ميں ۔۔۔۔۔۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 241) – دار الفكر-بيروت 

وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى. اهـ ۔۔۔

 

یعنی یہ سارے افعال محض  دکھاوے اور نام و نمود کے لۓ ہوتے ہیں، لہذا ان افعال سے احتراز کرنا چاہۓ۔ اس لۓ کہ یہ صرف شہرت اور نام و نمود کیلۓ ہوتا ہے، رضاء الہی مطلوب نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔

 

اور جو لوگ قرآن خوانی میں شرکت کرتے ہیں عموما ان ميں بھی اخلاص نہیں ہوتا، بہت سے لوگ اس لۓ شرکت کرتے ہیں کہ اگر نہیں جائیں گے تو اہل میت ناراض ہوں گے۔ اور بہت ۔۔۔۔ تو جب اخلاص ہی نہيں ہے تو ثواب کہاں ملے گا؟ اور جب پڑھنے والا ثواب سے محروم ہے تو پھر ایصال ثواب کس طرح ہوگا؟

 

(7/107)

۔۔۔ دنوں اور تاریخ کی تعیین اور رسوم کی پابندی کے بغیر قرآن خوانی کرکے ایصال ثواب کرے تو گنجائش ہے، ۔۔۔۔

 

کفایۃ المفتی (9/54) – الاشاعت

ایصال ثواب کے لۓ اجتماعی قرآن خوانی کا اہتمام بدعت ہے

۔۔۔۔ اگر تعليم مقصود نہ ہو بلکہ محض تلاوت بقصد قربت وبہ نیت مثوبت مقصود ہے تو اس کے لۓ یہ اہتمام کرنا اور مجلس منعقد کرنا شريعت سے ثابت نہيں پھر اسکے اندر اور شرائط و قیود کا اضافہ بھی ہو تو بدعت ہوجاۓ گا جبکہ مقصود محض تلاوت قرآن مجيد کا ثواب حاصل کرنا ہو تو اس کے لۓ بہترين صورت یہ ہے کہ تنہا اپنے حضور قلب کے اوقات ميں جس قدر بخشوع ودل بستگی ہو کرسکے کرلیا کرے کہ یہی طریقہ سلف صالحین یعنی صحابۂ کرام اور حضرات تابعین و ائمۂ مجتہدین کا طریقہ تھا۔ والخير كله فى اتباعهم …..

 

(4/131)

قرآن خوانی کے لۓ بستی کے مسلمانوں کو بلا تخصیص یوم کے احیانا جمع کرلینا مباح ہے، ۔۔۔۔

 

(4/3-132)

۔۔۔۔ اس مالی یا بدنی نیک کاموں میں کسی خاص وقت یا خاص تاریخ یا کسی خاص چیز یا خاص ہیئت کی شریعت مقدسہ نے کوئی شرط اور کوئی قید نہيں لگائی۔۔۔۔۔ ریا و نمود کی نیت نہ ہو، شہرت مقصود نہ ہو یا پابندی رسم کا ارادہ نہ ہو۔۔۔۔

 

 (4/138)

 

فتاوی محمودیہ (5/323) – محمودیہ

۔۔۔۔۔۔ صورت مسئلہ میں قرآن خوانی کیلۓ بلایا نہیں جاتا، بلکہ لوگ ۔۔۔۔

 

انفاس عیسی (1/215) از فتاوی رحیمیہ (3/32) – الاشاعت 

“جس طریقہ سے آج کل قرآن شریف پڑھ کر ایصال ثواب کیا جاتا ہے، یہ صورت مروجہ ٹھیک نہیں ہاں احباب خاص سے کہدیا جاۓ کہ اپنے اپنے مقام پر حسب توفیق پڑھ کر ثواب پہنچادیں (الی قولہ) چاہے تین مرتبہ قل ھو اللہ ہی پڑھ کر بخش دیں جس سے ایک قرآن کا ثواب مل جاۓگا یہ اس سے بھی اچھا ہے کہ اجتماعی صورت میں دس قرآن ختم کۓ جائیں اس میں اکثر اھل میت کو جتلانا ہوتاہے اور اللہ کے یہاں تھوڑے بہت کو نہیں دیکھا جاتا خلوص اور نیت دیکھی جاتی ہے۔” 

امداد الفتاوی (1/621) – مکتبہ دار العلوم کراچی 

سوال: سال کے اکثر حصوں میں بزرگوں کی ارواح کے ایصال ثواب کے لۓ لوگوں کو جمع کرکے بلا کسی خاص انتظام و اوقات متعینہ کے قرآن شریف پڑھا جاوے تو جائز ہے تو اپنے دوستوں و احباب کو شمولیت کیلۓ کہنا کیسا ہے؟

الجواب: یہ تداعی ہے غیر مقصود کیلۓ جو بدعت اور مکروہ ہے۔

 

فتاوی رحیمیہ (7/99) – الاشاعت

۔۔۔ الجواب: رسم و رواج کی پابندی اور برادری مروت اور دباؤ بغیر اور کوئی مخصوص تاریخ اور دن معین کۓ بغیر متعلقین، خیر خواہ اور عزیز و اقرباء ایصال ثواب کی غرض سے جمع ہو کر قرآن خوانی کریں تو یہ جائز ہے، ممنوع نہیں۔

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: