Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Web Designing Job

Web Designing Job

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

My question is
freelancing like as web designing, graphics designing, web Apps development software development and other works in odesk,freelancer,elance is halal or haram.My job is to take order from buyer by bids in online.then i complete the order .After submitting the order the buyer give me salary like doller in my account.then i cash this dollers by bank.is it halal or haram

My another question is
I work in  stocklot garments house.sometimes i handle banking activities  for office like deposit money to company saving account,withdraw money from bank account and other official work.My question is income by this banking work  is halal or haram for me.

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

The free lancing web designing job will be permissible as long as one does not  design anything contrary to Shariah, for example designing pictures of woman etc.[1]

The transaction you enquired about is permissible.[2]

The income one is receiving from handling such activities of the bank will be halal as one is not dealing with any interest related activities.[3]

It is permissible to do the banking chores of your employees stock lot garments.

And Allah Ta’āla Knows Best

Syed Haneef Ahmed

Student Darul Iftaa

New York, U.S.A

Checked and Approved by,

Mufti Ebrahim Desai.


[1] Kitaabul fatawa vol.5/pg.201

[2] بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 23)

وَيَجُوزُ التَّوْكِيلُ بِالْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ؛ لِأَنَّهُمَا مِمَّا يَمْلِكُ الْمُوَكِّلُ مُبَاشَرَتَهُمَا بِنَفْسِهِ فَيَمْلِكُ التَّفْوِيضَ إلَى غَيْرِهِ إلَّا أَنَّ لِجَوَازِ التَّوْكِيلِ بِالشِّرَاءِ شَرْطًا، وَهُوَ الْخُلُوُّ عَنْ الْجَهَالَةِ الْكَثِيرَةِ فِي أَحَدِ نَوْعَيْ الْوَكَالَةِ دُونَ النَّوْعِ الْآخَرِ وَبَيَانُ ذَلِكَ أَنَّ التَّوْكِيلَ بِالشِّرَاءِ نَوْعَانِ: عَامٌّ وَخَاصٌّ فَالْعَامُّ: أَنْ يَقُولَ لَهُ: اشْتَرِ لِي مَا شِئْتَ، أَوْ مَا رَأَيْتَ، أَوْ أَيَّ ثَوْبٍ شِئْتَ، أَوْ أَيَّ دَارٍ شِئْتَ، أَوْ مَا تَيَسَّرَ لَكَ مِنْ الثِّيَابِ، وَمِنْ الدَّوَابِّ، وَيَصِحُّ مَعَ الْجَهَالَةِ الْفَاحِشَةِ مِنْ غَيْرِ بَيَانِ النَّوْعِ وَالصِّفَةِ وَالثَّمَنِ لِأَنَّهُ فَوَّضَ الرَّأْيَ إلَيْهِ فَيَصِحُّ مَعَ الْجَهَالَةِ الْفَاحِشَةِ كَالْبِضَاعَةِ، وَالْمُضَارَبَةِ.

وَالْخَاصُّ: أَنْ يَقُولَ: اشْتَرِ لِي ثَوْبًا أَوْ حَيَوَانًا أَوْ دَابَّةً أَوْ جَوْهَرًا أَوْ عَبْدًا أَوْ جَارِيَةً أَوْ فَرَسًا أَوْ بَغْلًا، أَوْ حِمَارًا أَوْ شَاةً وَالْأَصْلُ فِيهِ أَنَّ الْجَهَالَةَ إنْ كَانَتْ كَثِيرَةً تَمْنَعُ صِحَّةَ التَّوْكِيلِ، وَإِنْ كَانَتْ قَلِيلَةً لَا تَمْنَعُ وَهَذَا اسْتِحْسَانٌ

[3] بینک کی ملازمت کا تفصیلی حکم

    در  اصل بینک کی ملازمت نا جائز ہونےکی دو وجہیں ہو سکتی ہیں،ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہے کہ ملازمت میں سود وغیرہ کے نا جائز معاملات میں اعانت ہے،دوسرے یہ کہ تنخاہ حرام مال سے ملنے کا احتمال ہےان میں سے پہلی وجہیں یعنی حرام کاموں میں مدد  کا جہاں  تک تعلق ہے،شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں،ہر درجہ حرام نہیں،بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہےجو براہ راست  حرام کام میں ہوں،مثلا سودی معاملہ کرنا،سود کا معاملہ لکھنا،سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ-لیکن اگر براہ راست سودی معاملہ میں انسان کو ملوث نہ ہونا  پڑے، بلکہ اس کام کی نوعیت ایسی ہو جیسے  ڈرائیور،چپراسی،یا جائز ریسرچ وغیرہ تو اس میں چونکہ براہ راست مدد نہیں ہے،اس لئے اس کی گنجا ئش ہے-

جہاں تک حرام  مال سے تنخاہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے مین شریعت کا اصول ہے کہ اگرایک مال جلال وھرام سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہو تو اس سے تنخواہ یا ہدیہ لینا ناجائز  نہیں، لیکن اگر حرام مال کم ہو تو جائز ہے-بینک کا  صورت حال  یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے،1-اصل سرمایہ2-ڈپازیٹرز کے پیسے3-سود اور حرام کاموں کی آمدنی،4-جائز خدمات کی آمدنی،اس سارے مجموعے میں صرف نمبر3 حرام ہے،باقی کو حرام نہیں کہا جا سکتا، اور چونکہ ہر بینک میں نمبر 1 اور نمبر دو کی کثرت ہوتی ہے،اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجموعہ غالب ہے،لہذاکسی جائز کام کی تنخاہ  اس سے وصول کی جا سکتی ہے-

یہ بنیاد ہےجس کی بناٰء پرعلماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے، البتہ احتیاط اس سے بھی اجتناب کیا جائے-

فتاوی عثمانی(3/396) مکتبہ دار العلوم کراچی

سود دینے سے دکان کے مال میں حرمت نہیں آتي دینے والوں کو گناہ ہوتا ہے اگر بدون سخت مجبوري کے دیں اور سود لینا مسلمان سے تو مطلقا حرام ہے اور کفار سے لینا بھي بعض علماء کے نزدیک حرام ہے مگر جب وہ قلیل ہے اور زیادہ آمدني بے سودي ہے تو ملازم دکان کو تنخواہ لینا جائز ہے جبکہ تنخواہ مال مخلوط سے دي جاۓ اس طرح جب اشیاء حلال زیادہ ہیں تو غلبہ حلال کو ہے اور ملازموں کي دغا فریب سے انکو گناہ عظیم ہوتا ہے- اسي طرح دکاندار کو بھي اگر وہ اس سے واقف ہے لیکن جو قیمت حاصل ہوتي ہے وہ حلال ہے  گو کراہت سے خالي نہیں- لیکن دکاندار کي ملک ہوجاتي ہے اسي طرح بیع فاسد میں قبضہ سے دکاندار کي ملک ہوجاتي ہے البتہ کراہت وخبث ضرور ہے اب اگر ملازم دکان کو یہ معلوم ہو کہ یہ تنخواہ جو مجھے دي گئي ہے یہ بیع فاسد کے ثمن سے دي گئي ہے یا سود کي آمدني سے جب تو اسکا لینا درست نہیں- اور اگر سب مخلوط ہو- اور اسکو معلوم نہ ہو کہ یہ تنخواہ بیع صحیح کي قیمت سے ہے یا فاسد کي تو تنخواہ حلال ہے

امداد الاحکام (551/3) مکتبہ دار العلوم کراچي                                                                                                                                                    

ہر ایسي ملازمت اور نوکري جس میں شریعت کے احکام کي خلاف ورزي نہ کرنا پڑتي ہو وہ جائز ہے پس اگر پولیس کي نوکري بھي ایسي ہو تو جائز ہوگي

محمود الفتاوی (469/5) مکتبہ محمودیۃ

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: