Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Can a Pharmacist work for a Bank?

Can a Pharmacist work for a Bank?

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

my father works in Reserve bank of India as a pharmacist. I want to know if he is earning halal money through this job or not, as he is directly not involved in any banking transactions, interests, or what ever reserve bank does which is not halal, but he is like supporting the staff, the employees of reserve bank of india if they get ill, by providing them with medicines etc. He gets paid by the Central government as he is working for the RBI dispensary, is his job halal, is his earning halal? Please throw a detailed light on this.

Answer

n the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

Your father’s job is compliant with Sharia.   His income is halal.  

And Allah Ta’āla Knows Best

Imran Cyclewala

Student Darul Iftaa
Lusaka, Zambia

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

 بینک کی ملازمت کا تفصیلی حکم

    در  اصل بینک کی ملازمت نا جائز ہونےکی دو وجہیں ہو سکتی ہیں،ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہے کہ ملازمت میں سود وغیرہ کے نا جائز معاملات میں اعانت ہے،دوسرے یہ کہ تنخاہ حرام مال سے ملنے کا احتمال ہےان میں سے پہلی وجہیں یعنی حرام کاموں میں مدد  کا جہاں  تک تعلق ہے،شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں،ہر درجہ حرام نہیں،بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہےجو براہ راست  حرام کام میں ہوں،مثلا سودی معاملہ کرنا،سود کا معاملہ لکھنا،سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ-لیکن اگر براہ راست سودی معاملہ میں انسان کو ملوث نہ ہونا  پڑے، بلکہ اس کام کی نوعیت ایسی ہو جیسے  ڈرائیور،چپراسی،یا جائز ریسرچ وغیرہ تو اس میں چونکہ براہ راست مدد نہیں ہے،اس لئے اس کی گنجا ئش ہے-

جہاں تک حرام  مال سے تنخاہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے مین شریعت کا اصول ہے کہ اگرایک مال جلال وھرام سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہو تو اس سے تنخواہ یا ہدیہ لینا ناجائز  نہیں، لیکن اگر حرام مال کم ہو تو جائز ہے-بینک کا  صورت حال  یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے،1-اصل سرمایہ2-ڈپازیٹرز کے پیسے3-سود اور حرام کاموں کی آمدنی،4-جائز خدمات کی آمدنی،اس سارے مجموعے میں صرف نمبر3 حرام ہے،باقی کو حرام نہیں کہا جا سکتا، اور چونکہ ہر بینک میں نمبر 1 اور نمبر دو کی کثرت ہوتی ہے،اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجموعہ غالب ہے،لہذاکسی جائز کام کی تنخاہاس سے وصول کی جاسکتی ہے-

یہ بنیاد ہےجس کی بناٰء پرعلماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے، البتہ احتیاط اس سے بھی اجتناب کیا جائے-

فتاوی عثمانی(3/396) مکتبہ دار العلوم کراچی 

 

سود دینے سے دکان کے مال میں حرمت نہیں آتي دینے والوں کو گناہ ہوتا ہے اگر بدون سخت مجبوري کے دیں اور سود لینا مسلمان سے تو مطلقا حرام ہے اور کفار سے لینا بھي بعض علماء کے نزدیک حرام ہے مگر جب وہ قلیل ہے اور زیادہ آمدني بے سودي ہے تو ملازم دکان کو تنخواہ لینا جائز ہے جبکہ تنخواہ مال مخلوط سے دي جاۓ اس طرح جب اشیاء حلال زیادہ ہیں تو غلبہ حلال کو ہے اور ملازموں کي دغا فریب سے انکو گناہ عظیم ہوتا ہے- اسي طرح دکاندار کو بھي اگر وہ اس سے واقف ہے لیکن جو قیمت حاصل ہوتي ہے وہ حلال ہے  گو کراہت سے خالي نہیں- لیکن دکاندار کي ملک ہوجاتي ہے اسي طرح بیع فاسد میں قبضہ سے دکاندار کي ملک ہوجاتي ہے البتہ کراہت وخبث ضرور ہے اب اگر ملازم دکان کو یہ معلوم ہو کہ یہ تنخواہ جو مجھے دي گئي ہے یہ بیع فاسد کے ثمن سے دي گئي ہے یا سود کي آمدني سے جب تو اسکا لینا درست نہیں- اور اگر سب مخلوط ہو- اور اسکو معلوم نہ ہو کہ یہ تنخواہ بیع صحیح کي قیمت سے ہے یا فاسد کي تو تنخواہ حلال ہے

امداد الاحکام (551/3) مکتبہ دار العلوم کراچي                                                                                                                                                    

 

ہر ایسي ملازمت اور نوکري جس میں شریعت کے احکام کي خلاف ورزي نہ کرنا پڑتي ہو وہ جائز ہے پس اگر پولیس کي نوکري بھي ایسي ہو تو جائز ہوگي

محمود الفتاوی (469/5) مکتبہ محمودیۃ

 

بینک کي ملازمت اس لۓ ناجائز ہے کہ اکثر اوقات یہ سودي لین دین میں تعاون ہوتا ہے اور سودي معاملات میں تعاون بھي جائز نہيں جب کہ گورنمنٹ کي دوسري ملازمتوں میں ملازمت کرنے والوں کا سود لینے اور دینے والوں سے کوئي تعلق نہیں ہوتا اس لۓ بینک کي ایسي ملازمت جس میں سودي کاروبار کے لکھنے یا لینے اور دینے میں تعاون ہوتا ہو جائز نہیں ہے اور دوسري سرکاري ملازمتیں جن میں براہ راست کسي حرام کا ارتکاب نہ ہوتا ہو جائز ہیيں

کتاب الفتاوی (410/5) زمزم پبلشرز

 

البتہ نیچے درجہ کي ملازمت (مثلا جاروب کش چوکیدار وغیرہ جن کا کاروبار اور معاملات سے تعلق نہیں نفس عمارت کي حفاظت وغیرہ پر مامور ہیں) جائز ہے

کتاب الفتاوی (392/5) زمزم پبلشرز

 

ہاں بینک میں وہ شعبے جو سود سے متعلق نہیں ہے مثلا بینک میں چپراسي باورچي درائيونگ جاروب کشي وغیرہ کي ملازمت جائز اور درسست ہے اور تنخوااہ بھي حلال ہے

فتاوی دار العلوم زکریا (673/5) زمزم پبلشرز

 

سودي کاروبار کرنے والے اداروں میں بجلي کي فٹنگ؟

آپ کے کام میں کوئي شرعي قباحت نہیں ہے اداروں کا سودي کاروبار ان کا فعل ہے جس کا وبال اور گناہ انہي پر ہے لہذا آپ کے کام کي اجرت بلا شبہ حلال ہے 

احسن الفتاوی (329/7) ایچ ایم سعید 

 

البتہ یہ ضروري ہے کہ اجرت کي رقم حلال آمدن سے ہو اس لۓ کمپني سے معاہدہ کرتے وقت یہ شرط کر لي جاۓ کہ ہمیں اجرت سودي منافع سے نہ دي جاۓ گي کمپني میں یقینا حلال آمدن کے ذرائع بھي ہونگے ان سے اجرت دي جاۓ

اگر حلال وحرام آمدن  کو خلط کر دیا جاتا ہے اور حلال کو الگ رکھنے پر ادارہ تیار نہ ہو تو اس کا حکم یہ ہے: “حلال وحرام مخلوط ہوں لیکن حلال غالب ہو تو اس سے اجرت لینا جائز ہے اور اگر حلال وحرام دونوں برابر ہوں یا حرام غالب ہوں تو جائز نہیں

احسن الفتاوی (329/7) ایچ ایم سعید

 

اور سود لينا مسلمان سے تو مطلق حرام ہے ، اور کفار سے لینا بعض علماء کی نزدیک حرام ہے، مگر جب وہ قلیل ہے اور زیادہ آمدنی بے سودی ہے، تو ملازم کی دکان کا تنخواہ لینا جائز ہے جبکہ تنخواہ مال مخلوط سے دی جاۓ۔ اس طرح جب اشیاء حلال زیادہ ہیں تو غلبہ حلال کو ہے (امداد الاحکام،ج3،ص533، مکتبہ دار العلوم کراچی) 

و قال الشيخ دام ظله: إذا اعطي الموجز الاجرة من المال المخلوط و الاجير عالم بالخلط, فكيف يجوز له أخذها, و الخبث قد تمكن بها الخلط . قلت : هذا علي قولها . و هو الاحوط. و لكن علي قول ابي حنيفة فالخلط مستهلك– فان قيل هذا يفيد ملكه لاجل استمتاعه به- قلت: عبارات الفتاوي تدل علي الاستمتاع أيضا علي قوله

امداد الاحکام (534/3) مکتبہ دار العلوم کراچي

 

اصل اباحت ہے اور الیقین لا یزول بالشک اسلۓ جب تک حلال کا غیر غالب نہ ہونا یقینا نہ معلوم ہو اس مخلوط سے تنخوہ لینا حلال ہے اور اگر ایسا انتظام کر لیا جاوے کہ خاص سرکاري رقم سے یہ تنخواہ لي جاوے تو اور زیادہ احتیاط کي بات ہے

امداد الفتاوی (147/4) مکتبہ دار العلوم کراچي

 

لو أن مسلما آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به لأنه لا معصية في عين العمل

فتاوى قاضي خان (33/3) دار الكتب العلمية

 

ولو أن رجلا أهدى إليه إنسان يكتسب من ربا أو رجل ظالم يأخذ أموال الناس أو اضافة فإن كان غالب ماله من حرام فلا ينبغي له أن يقبل ولا يأكل من طعامه ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه أو نحو ذلك فإن كان غالب ماله حلال فلا بأس بأن يقبل هديته ويأكل منه ما لم يتبين عنده أنه من حرام

عيون المسائل للسمرقندي (478/1) مطبعة أسعد


قوله ولكن مع هذا لو اشتراه يطيب له ووجهه أن كون الغالب في السوق الحرام لا يستلزم كون المشترى حراما لجواز كونه من الحلال المغلوب والأصل الحل قوله وأما مسألة ما إذا اختلط الحلال بالحرام إلخ في التمرتاشي في باب المسائل المتفرقة من كتاب الكراهة ما نصه لرجل مال حلال اختلطه مال من الربا أو الرشاة أو الغلول أو السحت أو من مال الغصب أو السرقة أو الخيانة أو من مال يتيم فصار ماله كله شبهة ليس لأحد أن يشاركه أو يبايعه أو يستقرض منه أو يقبل هديته أو يأكل في بيته وكذا إذا منع صدقاته وزكاته وعشره صار ماله شبهة لما في أخذه من مال الفقير وينبغي أن ترى الأشياء حلالا في أيدي الناس في ظاهر الحكم ما لم يتبين لك شيء مما وصفنا

غمز عيون البصائر (344/1) دار الكتب العلمية

(ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور) لأن الغالب في مالهم الحرمة (إلا إذا علم أن أكثر ماله من حل) بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به

وفي البزازية غالب مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديّته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام لأن أموال الناس لا يخلو عن حرام فيعتبر الغالب وإن غالب ماله الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال إنه حلال أورثته واستقرضته ولهذا قال أصحابنا لو أخذ مورثه رشوة أو ظلما إن علم وارثه ذلك بعينه لا يحلّ له أخذه وإن لم يعلمه بعينه له أخذه حكما لا ديانة فيتصدق به بنية الخصماء

وفي الخانية وقال الحلواني وكان الإمام أبو القاسم الحكيم يأخذ جوائز السلطان والحيلة فيه أن يشتري شيئا بمال مطلق ثم ينقده من أي مال شاء كذا رواه الثاني عن الإمام وعن الإمام أنّ المبتلى بطعام الظّلمة يتحرى إن وقع في قلبه حلّه قبل وأكل وإلا لا لقوله عليه الصلاة والسلام استفت قلبك الحديث وجواب الإمام فيمن به ورع وصفاء قلب ينظر بنور اللّه تعالى ويدرك بالفراسة

مجمع الأنهر شرح ملتقى الأبهر (529/2) دار إحياء التراث العربي

 

اگر زید کا باپ خالص حرام وناجائز روپیہ مثلا رشوت سود غصب وغیرہ کا روپیہ زید کو دیتا ہے یا ایسا مخلوط روپیہ دیتا ہے جس ميں زيادہ حرام ہے اور کم حلال تو زید کو اس کا لینا جائز نہيں صاف انکار کردے اگر کسي وجہ سے لے لیا ہے تو واپس کردے اگر واپس نہں کرسکتا ہے تو خود اپنے صرف میں نہ لاۓ بلکہ جن سے پاب نے لیا ہے ان کو واپس کردے وہ موجودہ نہ ہو تو انکے ورثہ کو دیدے اگر اصل مالک اور اس کے ورثہ کا علم نہ ہو تو خیرات کردے اور مسکینوں پر اصل مالک کي طرف سے صدقہ کردے

فتاوی محمودیۃ (482/16) دار الافتاء جامععیۃ فاروقیۃ

 

ان نصوص سے معلوم ہوا کہ جس شخص کي آمدني حلال اور حرام سے مخلوط ہو اس غالب کا اعتبار ہے غالب حلال ہے تو اس کا ہدیہ وضیافت قبول کرنا جائز ہے لیکن اگر خاص ہدیہ یا طعام کي بابت یقینا معلوم ہوجاۓ کہ اس ميں کچھ حرام ملا ہوا ہے تو اس کا قبول کرنا حرام ہے اور کھانا بھي حرام مگر امام ابو حنیفۃ کے نزدیک خلط واستھلاک ہے اس لۓ ان کے قول پر گنجائش ہے جیسا کہ بعض روایات سے ظاہر ہوگا اور اگر غالب آمدني حرام ہے تو ہدیہ ھدیہ وضیافت قبول کرنا حرام ہے 

امداد الاحکام (399/4) مکتبہ دار العلوم کراچي

 

الثامنة إذا كان غالب مال المهدي حلالا فلا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام وإن كان غالب ماله الحرام لا يقبلها، ولا يأكل إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو استقرضه قال الحلواني: وكان الإمام أبو القاسم الحاكم يأخذ جوائز السلطان والحيلة فيه أن يشتري شيئا بمال مطلق ثم ينقده من أي مال شاء كذا رواه الثاني عن الإمام وعن الإمام أن المبتلى بطعام السلطان والظلمة يتحرى فإن وقع في قلبه حله قبل وأكل، وإلا

لا، لقوله عليه الصلاة والسلام: استفت قلبك

الأشباه والنظائر (96/1) دار الكتب العلمية

 

و إن كان غالب مال المهدي من الحلال لا بأس بأن يقبل الهدية و يأكل ما لم يتبين عنده أنه حرام لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فيعتبر الغالب

فتاوى قاضيخان (244/3)

 

غالب مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتعين أنه من حرام

الفتاوى البزازية (478/2) دار الكتب العلمية

 

أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع

الفتاوى الهندية (5/ 342) دار الفكر

 

اس مسئلہ کا اصل مدار اس پر ہے کہ کفار مخاطب بالفروع ہیں یا نہیں اور اس میں فقہاء کے ما بین اختلاف ہے بعض علماء کی رائی یہ ہے کہ وہ ابتداء فقط مخاطب بالایمان والعقوبات ہیں مخاطب بالمعاملات نہیں ہیں جب کہ دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ کفار مخاطب بالمعاملت ہیں بہر حال کفار سود کی رقم کے مالک ہیں یہی ظاہر ہوتا ہے

فتاوی دار العلوم زکریا (600/5) زم زم پبلشرز

 

سوال: کفار جو مال حرام طریقے سے حاصل کریں اس کا حکم؟

جواب:

1) امام زفر کے نزدیک تمام خطابات عامہ واردہ في الشرع درباۂ معاملات کفار کو بھي شامل ہیں خواہ وہ حربي ہوں یا ذمي اور عموم خطاب کي وجہ سے حکم بھي عموما ثابت ہوگا لہذا جو معاملات کفار اہل حرب واہل ذمہ خلاف شرع کریں گے- ان پر حکم فساد لگیا جائیگا- گو اہل حرب سے بوجہ عدم ولایت واہل ذمۃ سے بوجہ معاہدہ کے تعرض نہ کیا جاۓ گا

2) صاحبین کے نزدیک اہل حرب کے معاملات خلاف شرع ہیں ہر ایک پر حکم فساد نہ لگایا جاۓ گا کیونکہ انہوں نے احکام اسلام کا التزام نہیں کیا گویا ثبوت حکم کے لۓ ان کے نزدیک عموم خطاب کافي نہیں بلکہ التزام بھي شرط ہے اور وہ اہل حرب میں مف‍قود ہے لیکن اہل ذمہ کے جو معاملات اسلام کے مسایل متفق علیہا کے خلاف ہوں گے ان پر حکم فساد لگایا جائیگا کیونکہ وہ معاملات میں احکام اسلام کا التزام کرچکے ہیں 

3) امام اعظم کے نزدیک اہل ذمہ کےے بھي معاملات خلاف شرع پر حکم فساد نہ لگیا جاۓ گا بشرطیکہ وہ معاملات خود ان کے دین کے موافق ہوں کیونکہ اہل ذمہ نے معاملات میں احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے خلاف میں نہیں کیا-

ہاں اگر کسي معاملہ کي بابت معاہدہ ہي میں ان سے شرط کر لي جاۓ اس کا التزام ان کي طرف سے ہوگا- باقي معاملات شرعیۃ جو ان کے معتقدات کے موافق نہیں اور نہ ان سے ان کے بارے میں کوئي شرط کي گئي ہے- ان میں اہل ذمہ کي طرف سے التزام نہیں پایا گیا لہذا ایسے معاملات جب وہ اپنے مذہب کے مووافق  کریں گے تو ان کو صحیح مانا جائيگا اور حکم فساد نہ دیا جائيگا اس تفصیل سے شبہات مذکورہ سوال کا جواب ظاہر ہوگیا- اشکال کا منشہ یہ تھا کہ جب کفار مخاطب بالعقوبات ومعاملات ہیں تو اگر وہ کوئي معاملہ خلاف شرع کرکے روپیہ حاصل کریں اس کو حلال نہ کہنا چاہۓبلکہ حرام کہنا چاہۓ جواب کا حاصل یہ ہے کہ کفار مخاطب باالفروع فی العقوبات والمعاملات اگر چہ ہیں لیکن لیکن حکم بالحرمۃ والفساد کے لۓ خطاب عام کافي نہیں بلکہ التزام بھي شرط ہے اہل حرب نے تو احکام اسلام کا التزام بلکل نہیں کیا نہ اپنے معتقد کے موافق ہیں اور نہ مخالف میں لہذا وہ تو جس طرح بھي روپیہ کمائيں خواہ رباء سے خواہ غصب سے خواہ بیوع باطلہ وفاسدہ سے خواہ اپنے مذہب کے موافق خواہ مخالف طریق سے بہر صورت وہ روپیہ وغیرہ ان کي ملک میں داخل ہوجائيگا اور مسلمان کو تنخواہ میں لینا اس کا جائز ہے اور اہل ذمہ نے احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے موافقات میں کیا ہے- مخالفات میں نہیں کیا- سوا ان امور کے جن کي شرط ان سے کر لي جاۓ– پس جو عقد اہل ذمہ اپنے دین کے موافق کریں وشرائط معاہدہ کے بھي خلاف نہ ہو اس میں حکم صحت دیا جائیگا گو وہ شریعت کے خلاف ہو البتہ جو عقد انکے دین کے بھي خلاف ہو یا شرائط معاہدہ کے خلاف ہو اس میں حکم فساد دیا جائیگا

امداد الاحکام (390/4) مکتبہ دار العلوم کراچي

 

سود دینے سے دکان کے مال میں حرمت نہیں آتي دینے والوں کو گناہ ہوتا ہے اگر بدون سخت مجبوري کے دیں اور سود لینا مسلمان سے تو مطلقا حرام ہے اور کفار سے لینا بھي بعض علماء کے نزدیک حرام ہے مگر جب وہ قلیل ہے اور زیادہ آمدني بے سودي ہے تو ملازم دکان کو تنخواہ لینا جائز ہے جبکہ تنخواہ مال مخلوط سے دي جاۓ اس طرح جب اشیاء حلال زیادہ ہیں تو غلبہ حلال کو ہے اور ملازموں کي دغا فریب سے انکو گناہ عظیم ہوتا ہے- اسي طرح دکاندار کو بھي اگر وہ اس سے واقف ہے لیکن جو قیمت حاصل ہوتي ہے وہ حلال ہے  گو کراہت سے خالي نہیں- لیکن دکاندار کي ملک ہوجاتي ہے اسي طرح بیع فاسد میں قبضہ سے دکاندار کي ملک ہوجاتي ہے البتہ کراہت وخبث ضرور ہے اب اگر ملازم دکان کو یہ معلوم ہو کہ یہ تنخواہ جو مجھے دي گئي ہے یہ بیع فاسد کے ثمن سے دي گئي ہے یا سود کي آمدني سے جب تو اسکا لینا درست نہیں- اور اگر سب مخلوط ہو- اور اسکو معلوم نہ ہو کہ یہ تنخواہ بیع صحیح کي قیمت سے ہے یا فاسد کي تو تنخواہ حلال ہے

امداد الاحکام (551/3) مکتبہ دار العلوم کراچي                                                                                                                                                    

 

الكافر مكلف بالفروع عند الشافعية ومشايخنا العراقيين خلافا للحنفية البخاريين وقيل للعتزلة أيضا وقيل مكلف بالهني فقط وأما التكليف بالعقوبات والمعاملات فإتفاق بيننا وبينهم بعقد الذمة

فواتح الرحموت (108/1) دار إحياء التراث

 

ولا خلاف أن الخطاب بالمعاملات يتناولهم أيضا لأن المطلوب بها معنى دنيوي وذلك بهم أليق فقد آثروا الدنيا على الآخرة ولأنهم ملتزمون لذلك فعقد الذمة يقصد به التزام أحكام المسلمين فيما يرجع إلى المعاملات فيثبت حكم الخطاب بها في حقهم كما يثبت في حق المسلمين لوجود الإلتزام إلا فيما يعلم لقيام الدليل أنهم غير ملتزمين له

أصول السرخسي (73/1) مكتبة ابن عابدين

 

 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: