Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Can I use interest money to pay my taxes?

Can I use interest money to pay my taxes?

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

assalamu alaikum

1. Can I use interest money to pay my taxes. (I live in India, 30% tax)

2. My company is paying a premium for a healt insurance for me and my wife without deducting from my salary ,  Is it permissible to use it or better to avoid it?

If yes for qn.1 , can I use it to pay my taxes./

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh. 

1)     In general, the paying of taxes to service the needs of the country and its citizens is recognized in Shariah.

However, Shariah also takes into consideration practical realities. Exploitation, use and mal administration of public funds by government officials also impacts on the high tax rates, thus causing gross injustices. It is also a principle in Shariah to avert oppression (zulm) through oppression (zulm). Interest monies is regarded as oppression, hence it can be used to avert unfair oppressive taxes.[1] It is rather difficult to stipulate what percentage of taxes is oppression.

Every individual should apply his fair and honest decision and decide accordingly. In doing so, one should be conscious of Allah and accountability in the court of Allah.

2)    In principle it is not permissible to take out a conventional health insurance. However, if your company is not Muslim owned and if it takes out the insurance itself, you may benefit from it.[2]

And Allah Ta’āla Knows Best


Mufti Ebrahim Desai.


[1] وعلى هذا إذا دخل مسلم أو ذمي دار الحرب بأمان فعاقد حربيا عقد الربا أو غيره من العقود الفاسدة في حكم الإسلام جاز عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله وكذلك لو كان أسيرا في أيديهم أو أسلم في دار الحرب ولم يهاجر إلينا فعاقد حربيا وقال أبو يوسف لا يجوز للمسلم في دار الحرب إلا ما يجوز له في دار الإسلام (وجه) قوله أن حرمة الربا ثابتة في حق العاقدين، أما في حق المسلم فظاهر وأما في حق الحربي فلأن الكفار مخاطبون بالحرمات وقال تعالى جل شأنه {وأخذهم الربا وقد نهوا عنه} ولهذا حرم مع الذمي والحربي الذي دخل دارنا بأمان (وجه) قولهما أن أخذ الربا في معنى إتلاف المال وإتلاف مال الحربي مباح وهذا لأنه لا عصمة لمال الحربي فكان المسلم بسبيل من أخذه إلا بطريق الغدر والخيانة فإذا رضي به انعدم معنى الغدر

بدائع الصنائع (516/9) دار الكتب العلمية

حکومت کی طرف سے جو محصول لۓ جاتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ محصول جس کے عوض ہمیں کوئی راحت یا فائدہ پہنچایا جاتا ہے، مثلا روڈ ٹیکس، پانی ٹیکس، یا راستے گلی کوچے کی صفائی کے لۓ میونسپل ٹیکس وغیرہ لیا جاتا ہے، ان اخراجات کے پورا کرنے کے لۓ ہمیں تعاون کرنا ضروری ہے، اس لۓ اس میں سود کی رقم دینا ذاتی مفاد میں استعمال کرنے کے برابر ہے- دوسرا وہ محصول جو شرعا ناجائز، ظلم اور جبر وتشدد ہے، لیکن غیر اسلامی حکومت ہونے کے سبب قانونا ادا کرنا پڑتا ہے، مثلا انکم ٹیکس، چنگی نا کے، ایسے ناجائز ٹیکس میں بینک کے سود کی رقم دی جاۓ تو اس کی شرعا گنجائش ہے-

فتاوی دینیہ (196/4) جامعیہ حسینیہ

سوال: انکم ٹیکس جو حکومت کو ادا کیا جاتا ہے اگر بینک سے محصلہ سود کی رقم اس میں ادا کردی جاۓ تو کیا حکم ہے؟ کیا یہ درست ہوگا؟

جواب: انکم ٹیکس ایک ناواجبی ٹیکس ہے اور ناواجب حد تک وصول کیا جاتا ہے اس لیے اگر بینک میں کسی مجبوری کے تحت ایسی اسکیم میں رقم رکھنی پڑی جس میں سود حاصل ہوتا ہے اور سود مل گیا تو اس سود سے انکم ٹیکس ادا کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ بینک یا وہ ادارہ سرکاری ہی ہو کیوں کہ مال حرام کا حکم یہی ہے کہ اسے اصل مالک کو پہونچایا جاۓ اور سرکار سے مال حرام حاصل ہوا اور اسی کو پہنچا دیا گیا تاہم خاص اس مقصد کے لۓ کہ سود حاصل ہوگا اور اس سے انکم ٹیکس ادا کریں گے بینک میں رقم رکھنی درست نہیں ہے – واللہ اعلم

واضح ہو کہ یہ اجازت بدرجہ ضرورت ومجبوری اور موجودہ بڑھتے ہوۓ غیر محول ٹیکس کو سامنے رکھ کر ہے ورنہ یہ رقم در اصل سود کی ہے جو حرام ہے لہذا عام ٹیکس جیسے بلدیہ وغیرہ یا اس طرح کے دوسرے معاملہ کے لۓ بینک کے سود کو استعمال کرنے کا حیلہ اختیار کرنا درست نہیں ہوگا

کتاب الفتاوی (318/5) زمزم پبلشرز

Fatawa Darul Uloom Zakariyya vol.5/398

 

[2]                                                                بیمہ (انشورنس) درست نہیں الا کہ حکومت کی طرف سے لازم ہو

(25/7) احسن الفتاوی

جب کہ بیمہ طیب خاطر کی وجہ سے نہ ہو بلکہ حکومت کی طرف سے ہو تو اس صورت میں بیمہ لینا درست ہوگا، لیکن بسورت حادثہ جمع کردہ رقم سے زائد واجب التصدق ہے۔

 

(309/6) جامع الفتاوی- ادارہ تالیفات اشرفیہ

بیمہ کی جو موجودہ صورتیں رائج ہیں وہ شرعی نقطہ نظرسےصحیح نہیں بلکہ قمار اور جوا کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ اس لئے اپنے اختیار سے بیمہ کرانا جائز نہیں اور اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے بیمہ کرانا پڑے تو اپنی ادا کردہ رقم سے زیادہ وصول کرنا درست نہیں چونکہ بیمہ کا کاروبار درست نہیں اس لئے بیمہ کمپنی میں ملازمت بھی صحیح نہیں۔

 

(312/6) جامع الفتاوی- ادارہ تالیفات اشرفیہ

بیمہ سود وقمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو اسی پر اکتفائ کیا جائے۔

 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.