Home » Hanafi Fiqh » DaruliftaaMW.com » After Intercourse And Ghusl, Fluid Still Comes Out

After Intercourse And Ghusl, Fluid Still Comes Out

Question:

After having intercourse there is still some fluid that comes out & I would like to know if after a while I perform ghusal in order to attain purity. And still some fluid comes out of my p. parts Iwould like to know if my ghusal is counted or not? What do i do then?

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

If after having intercourse, one has urinated, or had slept or had walked at least 40 steps and thereafter fluid comes out and there is no urge and desire as well at that time, then ghusl will not have to be repeated. The soiled parts can be washed and wudhu be made. [1]

And Allah Ta’āla Knows Best

Mufti Safwaan Ibn Ml Ahmed Ibn Ibrahim

Darul Iftaa
Limbe, Malawi

Checked and Approved by,

Mufti Ebrahim Desai.

_________________________

 [1] الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 160) – دار الفكر-بيروت

وَشَرَطَهُ أَبُو يُوسُفَ، وَبِقَوْلِهِ يُفْتَى فِي ضَيْفٍ خَافَ رِيبَةً أَوْ اسْتَحَى كَمَا فِي الْمُسْتَصْفَى. وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ والتتارخانية مَعْزِيًّا لِلنَّوَازِلِ: وَبِقَوْلِ أَبِي يُوسُفَ نَأْخُذُ؛ لِأَنَّهُ أَيْسَرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ قُلْت وَلَا سِيَّمَا فِي الشِّتَاءِ وَالسَّفَرِ. وَفِي الْخَانِيَّةِ: خَرَجَ مَنِيٌّ بَعْدَ الْبَوْلِ وَذَكَرُهُ مُنْتَشِرٌ لَزِمَهُ الْغُسْلُ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَمَحَلُّهُ إنْ وَجَدَ الشَّهْوَةَ، وَهُوَ تَقْيِيدُ قَوْلِهِمْ بِعَدَمِ الْغُسْلِ بِخُرُوجِهِ بَعْدِ الْبَوْلِ.

  • ———————————•

[رد المحتار]

(قَوْلُهُ: وَشَرَطَهُ أَبُو يُوسُفَ) أَيْ شَرَطَ الدَّفْقَ، وَأَثَرُ الْخِلَافِ يَظْهَرُ فِيمَا لَوْ احْتَلَمَ أَوْ نَظَرَ بِشَهْوَةٍ فَأَمْسَكَ ذَكَرَهُ حَتَّى سَكَنَتْ شَهْوَتُهُ ثُمَّ أَرْسَلَهُ فَأَنْزَلَ وَجَبَ عِنْدَهُمَا لَا عِنْدَهُ، وَكَذَا لَوْ خَرَجَ مِنْهُ بَقِيَّةُ الْمَنِيِّ بَعْدَ الْغُسْلِ قَبْلَ النَّوْمِ أَوْ الْبَوْلِ أَوْ الْمَشْيِ الْكَثِيرِ نَهْرٌ أَيْ لَا بَعْدَهُ؛ لِأَنَّ النَّوْمَ وَالْبَوْلَ وَالْمَشْيَ يَقْطَعُ مَادَّةَ الزَّائِلِ عَنْ مَكَانِهِ بِشَهْوَةٍ فَيَكُونُ الثَّانِي زَائِلًا عَنْ مَكَانِهِ بِلَا شَهْوَةٍ فَلَا يَجِبُ الْغُسْلُ اتِّفَاقًا زَيْلَعِيٌّ، وَأَطْلَقَ الْمَشْيَ كَثِيرٌ، وَقَيَّدَهُ فِي الْمُجْتَبَى بِالْكَثِيرِ وَهُوَ أَوْجَهُ؛ لِأَنَّ الْخُطْوَةَ وَالْخُطْوَتَيْنِ لَا يَكُونُ مِنْهُمَا ذَلِكَ حِلْيَةٌ وَبَحْرٌ. قَالَ الْمَقْدِسِيَّ: وَفِي خَاطِرِي أَنَّهُ عُيِّنَ لَهُ أَرْبَعُونَ خُطْوَةً فَلْيُنْظَرْ. اهـ.

(قَوْلُهُ: خَافَ رِيبَةً) أَيْ تُهْمَةً.

(قَوْلُهُ: وَبِقَوْلِ أَبِي يُوسُفَ نَأْخُذُ) أَيْ فِي الضَّيْفِ وَغَيْرِهِ. وَفِي الذَّخِيرَةِ أَنَّ الْفَقِيهَ أَبَا اللَّيْثِ وَخَلَفَ بْنَ أَيُّوبَ أَخَذَا بِقَوْلِ أَبِي يُوسُفَ. وَفِي جَامِعِ الْفَتَاوَى أَنَّ الْفَتْوَى عَلَى قَوْلِ إسْمَاعِيلَ.

(قَوْلُهُ: قُلْت إلَخْ) ظَاهِرُهُ الْمَيْلُ إلَى اخْتِيَارِ مَا فِي النَّوَازِلِ، وَلَكِنْ أَكْثَرُ الْكُتُبِ عَلَى خِلَافِهِ حَتَّى الْبَحْرُ وَالنَّهْرُ، وَلَا سِيَّمَا قَدْ ذَكَرُوا أَنَّ قَوْلَهُ قِيَاسٌ وَقَوْلَهُمَا اسْتِحْسَانٌ وَأَنَّهُ الْأَحْوَطُ، فَيَنْبَغِي الْإِفْتَاءُ بِقَوْلِهِ فِي مَوَاضِعِ الضَّرُورَةِ فَقَطْ تَأَمَّلْ.

وَفِي شَرْحِ الشَّيْخِ إسْمَاعِيلِ عَنْ الْمَنْصُورِيَّةِ قَالَ الْإِمَامُ قَاضِي خَانْ: يُؤْخَذُ بِقَوْلِ أَبِي يُوسُفَ فِي صَلَوَاتٍ مَاضِيَةٍ فَلَا تُعَادُ، وَفِي مُسْتَقْبَلَةٍ لَا يُصَلِّي مَا لَمْ يَغْتَسِلْ. اهـ. [تَنْبِيهٌ] إذَا لَمْ يَتَدَارَكْ مَسْكَ ذَكَرِهِ حَتَّى نَزَلَ الْمَنِيُّ صَارَ جُنُبًا بِالِاتِّفَاقِ، فَإِذَا خَشِيَ الرِّيبَةَ يَتَسَتَّرُ بِإِيهَامِ أَنَّهُ يُصَلِّي بِغَيْرِ قِرَاءَةٍ وَنِيَّةٍ وَتَحْرِيمَةٍ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ وَيَقُومُ وَيَرْكَعُ شِبْهَ الْمُصَلِّي إمْدَادٌ.

(قَوْلُهُ: وَمَحْمَلُهُ) أَيْ مَا فِي الْخَانِيَّةِ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَيَدُلُّ عَلَيْهِ تَعْلِيلُهُ فِي التَّجْنِيسِ بِأَنَّ فِي حَالَةِ الِانْتِشَارِ وَجَدَ الْخُرُوجَ وَالِانْفِصَالَ جَمِيعًا عَلَى وَجْهِ الدَّفْقِ وَالشَّهْوَةِ اهـ: وَعِبَارَةُ الْمُحِيطِ كَمَا فِي الْحِلْيَةِ: رَجُلٌ بَالَ فَخَرَجَ مِنْ ذَكَرِهِ مَنِيٌّ، إنْ كَانَ مُنْتَشِرًا فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ دَلَالَةُ خُرُوجِهِ عَنْ شَهْوَةٍ.

(قَوْلُهُ: وَهُوَ) أَيْ مَا فِي الْخَانِيَّةِ.

(قَوْلُهُ: تَقْيِيدُ قَوْلِهِمْ) أَيْ فَيُقَالُ إنَّ عَدَمَ وُجُوبِ الْغُسْلِ بِخُرُوجِهِ بَعْدَ الْبَوْلِ اتِّفَاقًا إذَا لَمْ يَكُنْ ذَكَرُهُ مُنْتَشِرًا فَلَوْ مُنْتَشِرًا وَجَبَ؛ لِأَنَّهُ إنْزَالٌ جَدِيدٌ وُجِدَ مَعَهُ الدَّفْقُ وَالشَّهْوَةُ. أَقُولُ: وَكَذَا يُقَيَّدُ عَدَمُ وُجُوبِهِ بِعَدَمِ النَّوْمِ وَالْمَشْيِ الْكَثِيرِ.

 

امداد الفتاوی (78/1) – مکتبہ دار العلوم کراچی

اس روایت سے ثابت ہوا کہ صورت مسئلہ میں جب احتلام کے بعد پیشاب کرلیا گیا ہے پھر بعد غسل جو دھات نکلے اس سے دوبارہ غسل واجب نہیں ہوا۔۔۔

۔۔۔ اگر اس وقت عضو منتشر نہ ہو تو تو دو بارہ غسل واجب نہیں اور اگر منتشر ہو اور شہوت بھی ہو تو غسل واجب ہوگا۔

 

فتاوی حقانیہ (534/2) – حقانیہ

 

فتاوی دار العلوم زکریا (1/503) – زمزم

غسل کے بعد باقی ماندہ منی نکل آئے تو اعادئہ غسل ہے یا نہیں ؟

سوال: اگر کسی نے اپنی عورت سے ہمبستری کی یااحتلام ہوا پھر غسل کیا پھر باقی منی نکل آئی تو پھر غسل کا اعادہ اس پر ہے یا نہیں اور اگر یہی معاملہ عورت کو پیش آجائے تو احناف اور شوافع کے نزدیک کیا حکم ہے ؟

جواب : اگر کسی عورت سے ہمبستری کی اور پھر غسل کیا اور بعد میں منی نکلی تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر زیادہ چلنے یا پیشاب کے بعد یا نیندکے بعد ایسا ہوا ہو تو اس پر غسل کا اعادہ نہیں ہے لیکن اگر پیشاب یا نیند یا زیادہ چلنے سے پہلے منی آئی تو طرفین کے نزدیک اس پر اعادئہ غسل ضروری ہے جب کہ امام یو سف ؒکے نزدیک اس پر غسل نہیں ہے ،ضرورت کے وقت امام ابو یوسفؒ کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے لیکن عام حالات میں اعادئہ غسل ضروری ہے ، چونکہ یہی احوط ہے اور نجاست وغیرہ کے باب میں احتیاط اولی ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

ولواغتسل من الجنابة قبل ان یبول اوینام وصلی ثم خرج بقیة المنی فعلیه ان یغتسل عندهما خلافا لابی یوسف ؒولکن لا یعید تلک الصلوة فی قولهم جمیعا،ولوخرج بعد مابال اونام اومشی لایجب علیه الغسل اتفاقا کذا فی التبیین۔(فتاوی هندیه ۱/ ۱٤)

فتاوی شامی میں ہے :

فلواغتسلت فخرج منها منی أی منیها اعادت الغسل لاالصلوة والالا(بشهوة) وان لم یخرج من رأس الذکر(بها) وشرطه ابویوسف وبقوله یفتی فی ضیف خاف ریبة او استحییٰ ، وفی القهستانی والتاتارخانیة معزیا للنوازل ویقول ابی یوسف نأخذ لانه أیسر علی المسلمین قلت ولاسیما فی الشتا ء والسفر۔

(قوله وان لم یخرج بها) ای بشهوة (قوله وشرطه ابو یوسف ) ای شرط الدفق (قوله قلت) ظاهره المیل الی اختیارما فی النوازل ولکن اکثرالکتب علی خلافه ولاسیما قد ذکروا ان قوله قیاس وقولهما استحسان وانه الاحوط۔فینبغی الافتاء بقوله فی مواضع الضرورة فقط تأمل۔(شامی ۱/ ۱٦۰)

اور اگر عورت کو یہ مسئلہ پیش آئے اور عورت ہی کی منی ہو تو بھی احناف کے نزدیک مسئلہ یہی ہے اور اگر عورت سے نکلنے والی منی مرد کی ہے تو پھر اس پر غسل کا اعاہ نہیں ہے ، بلکہ صرف وضوء کا فی ہے ۔

قوله والا فلا ) ای وان لم یکن منیها بل منی الرجل لا تعید شیئا وعلیها الوضوء ۔)

 

فتاوی دار العلوم دیوبند (134/1) – اشاعت

اس بارہ میں شامی میں یہ تفصیل کی ہے کہ بعد بول کے اگر انتشار باقی رہے اور اس انتشار کی حالت میں بقیہ منی نکلے تو غسل دوبارہ لازم ہے اور اگر انتشار نہیں رہا تو غسل واجب نہیں اور وجوب غسل کے لئے انفصال بشہوت شرط ہے، اگرچہ خروج بشوۃ نہ ہو مگر مواقع ضرورت میں خروج بشہوۃ پر فتوی ہے جو قول ہے ابو یوسف کا، پس ما سوا ضرورت کے انفصال بشہوۃ پر فتوی ہے۔

 

کتاب المسائل جلد  ( 172/1 )ناشر : المرکز العلمی للنشر والتحقیق مراد آباد، انڈیا

– مؤلف : مولانا مفتی سید محمد سلمان منصور پوری صاحب

غسل کے بعد خروجِ منی
اگر جنبی شخص نے پیشاب سے فراغت کے بعد غسل کیا، مگر ابھی سابقہ جوش باقی تھا اور غسل کے بعد منی کا خروج ہوا تو دوبارہ غسل واجب ہوگا، اور اگر سابقہ جوش بالکل ختم ہوگیا تھا تو اب منی کے خروج سے دوبارہ غسل واجب نہ ہوگا۔ وإذا بال فخرج من ذکرہ منيٌّ فإن کان ذکرہ منتشراً فعلیہ الغسل وإن کان منکسراً فعلیہ الوضوء۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ زکریا ۱؍۲۸۳، ہندیہ ۱؍٤۱، شامی بیروت ۱؍۲٦۷، زکریا ۱؍۲۹۸، المحیط البرہانی ۱؍۲۳۰)


This answer was collected from DarulIftaaMW.com, which is the official website of Darul Iftaa Malawi, head by Mufti Safwaan Ibrahim.
He completed his Aalimiyyah studies in Darul Uloom Azaadville and further studied his Iftaa course at Darul Iftaa Mahmudiyyah – both in South Africa.

Read answers with similar topics: