Home » Hanafi Fiqh » AnswersToFatawa » Moon sighting  

Moon sighting  

Answered as per Hanafi Fiqh by AnswersToFatawa

Salam wa Alaykum,

Lately in the Netherlands there have been meetings and various Muslim organizations/entities, accompanied by the leading ‘Ulema in the Netherlands, stating to follow Morocco, as opposed to Saudi Arabia, in their testimony when they have seen the waxing crescent.

The point they have raised, after extensive research gathered by different research organizations such as the ICO Project, that the testimony of Saudi Arabia is not valid and is either based on deception/mistakes. They have done the empiric research of how many errors they have made in the past. There is also astronomical research done on the validity of their claim on seeing the waxing crescent, the conclusion being that they are in fact inadequate and not true. You can visit the website of ICOP to do this research for yourself.

We would like to have an advice if it is better:

–       To follow Morocco and it’s methodology, who has over 270 scientific/military/governmental organizations/entities that reaffirm each other, the leading ‘Ulama and researchers in the Nethelands?

–       To follow Saudi Arabia, when they have in many cases accepted and testified in regards to the seeing of the waxing crescent, before the moon is actually visible or even born?

Djazakallah Khayran and Wa alaykum Salaam,

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

According to preferred view in the Hanafi Mazhab, different horizons are not taken into considerations and therefore if the crescent is sighted in one country it is accepted in all other countries[1].

However, we agree with the Ulema of Holland that it is safer to leave the sighting of Saudi Arabia and use the sighting of Morocco due to the many errors made by Saudi Arabia.

This is the view of many of the Subcontinent Ulema such as Mufti Taqi Uthmani[2], Daruloom Deoband[3], Jamiah Binoria[4] and many other Ulema[5].

And Allah Ta’āla Knows Best

Hafizurrahman Fatehmahomed

Student Darul Iftaa
Netherlands

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai

[1]

 

                                                                           معين المفتي على جواب المستفتي (1/ 146)

إذا رآه أهل بلدة أخرى ولم يره أهل بلدة وجب عليهم أن يصوموا برؤية أولئك إذا ثبت عندهم بطريق موجب، ويلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب، وهو ظاهر /ك:76/ المذهب، وعليه الفتوى، كما في الخلاصة والبحر الرائق.

 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 290)

(قوله: ولا عبرة باختلاف المطالع) فإذا رآه أهل بلدة، ولم يره أهل بلدة أخرى وجب عليهم أن يصوموا برؤية أولئك إذا ثبت عندهم بطريق موجب، ويلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب، وقيل: يعتبر فلا يلزمهم برؤية غيرهم إذا اختلف المطلع، وهو الأشبه كذا في التبيين، والأول ظاهر الراوية، وهو الأحوط كذا في فتح القدير، وهو ظاهر المذهب، وعليه الفتوى كذا في الخلاصة أطلقه فشمل ما إذا كان بينهما تفاوت بحيث يختلف المطلع أولا وقيدنا بالثبوت المذكور؛

 

النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 14)

(ولا عبرة باختلاف المطالع) جمع مطلع بكسر اللام موضع الطلوع فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب في ظاهر المذهب وعليه الفتوى كذا في (الخلاصة).

فتح القدير – ط. الفكر (2/ 313)

وإذا ثبت في مصر لزم سائر الناس فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب في ظاهر المذهب

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 145)

(واختلاف المطالع) ورؤيته نهارا قبل الزوال وبعده (غير معتبر على) ظاهر (المذهب) وعليه

أكثر المشايخ، وعليه الفتوى.

بحر عن الخلاصة (فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب) إذا ثبت عندهم رؤية أولئك بطريق موجب كما مر، وقال الزيلعي: الاشبه أنه يعتبر، لكن قال الكمال: الاخذ بظاهر الرواية أحوط.

[2]

۔۔۔آپ نےبرطانيہ ميں رویت کے سلسلے ميں پيش آنے والے مسئلے کا ذکر فرمایاہے۔فلکی حساب کے ذریعے رویت هلال کا فيصلہ تو جمهورِ امت کے فيصلے کے مطابق درست نهيں۔ اور ميرے نزدیک برطانيہ ميں یهی طریقہ مناسب ہے کہ مراکش وغيرہ سے شرعی طریقہ پر رابطہ قائم کرکے اسکی رویت کو برطانيہ ميں معتبر مانا جائے۔سعودی عرب کی رویت بهی معتبر ہو سکتی ہے مگر ۔سعودی عرب ميں جو نظام جاری ہے اسکے پيش نظر دوسرے ملکوں ميں اس پر اعتماد مشکل ہے۔

آپکے پهلے خط کاجواب دےچکا ہوں اميد ہے کہ اب وہ خط مل گيا ہو گا۔خلاصہ یہ ہے کےاحقر کی رائے ميں اهل انگلينڈ کيلے سعودی عرب کے اعلان کو بحالت موجودہ کافی سمجهنا مناسب نهيں۔بلکہ ان کو مطلع صاف نہ ہونے کی صورت ميں مراکش سے رجوع کرنا چاہيے ۔ سعودی عرب ميں کئی مرتبہ چاند کی ولادت سے پہلے ہی شهادت کو معتبر ماننے کا واقعہ پيش آیا جو احقر کی نظر ميں محلِ نظر ہے۔ اور متعدد سعودی علما سے احقر نے گفتگو کی وہ بهی اس معاملے ميں پریشان نظر آے ليکن چونکہ اس مسئلہ کاتعلق مجلس القضا الاعلی سے ہے اسلے وہ بےبس تهے۔

http://www.wifaqululama.co.uk/moonsighting/fatawa/35-taqimoon

[3]

اس ملک ميں ماہِ رمضان و عيد کے موقع پر ثبوتِ هلال کے باب ميں جو اختلاف ہے وہ آنجناب کو معلوم ہی ہے۔ ایک مدت تک ہمارے علماءِ حق علماءِ دیوبند کا نمائندہ طبقہ قریبی ملک مراکش کی رویت کی معتمد خبر کی بنياد پر فيصلے کرتا تها اور وہی اقرب الی الصحۃ قابل اطمئنان اور حنفيہ کے اصول کے مطابق حزم و احتياط پر مبنی تها مگر چونکہ وہاں سے عموماً اطلاع ملنے ميں تاخير ہوتی تهی جسکی وجہ سے لوگوں کو انتظار کرنا پڑهتا تها اور ایک مرتبہ عيد کا چاند نہ ہونے کی اور پهر دوسرے روز ثبوت ہو جانے پر عيد کی اطلاع اور روزوں کو توڑنےکی خبر دی گئی جس سے لوگوں ميں کافی بيچينی پيدا ہو گئ حالانکہ بيچينی اورپریشان ہونے کی کوئ خاص بات نهيں تهی۔ اسطرح کے واقعات کبهی کبهار ہر جگہ پيش آتے رہتے ہيں، ضرورت تهی کہ ہمارے علماء کا وہ طبقہ جو اس وقت چاند کی اطلاع اور تحقيق کی باگ دوڈ اپنے ہاته ميں لئے ہوئے تها عامۃ الناس کو اطمئنان و سکون کی تلقين کرتا اور انهيں سمجهاتا مگر انهوں نے ان احوال کو مجبورکن احوال بتا کر ملک و بيرونِ ملک ارباب فقہ و افتاء کی خدمت ميں پيش فرما کر سعودی رویت کے مطابق رمضان و عيد کی ابتدا کے جواز کا فتوی حاصل کر ليا اور اسکی خوب اشاعت کی اور اسطرح کا ماحول بنا دیا کہ یهی حق ہے اور اسکے خلاف سراسر باطل ہے حالانکہ ان تمام مفتيان کے فتوے کی حقيقت صرف اتنی تهی کہ اور ہے کہ ضرورت اور مجبوری کيوجہ سے اسپر عپل کرنے کی گنجائش ہے۔ گنجائش دین ا اور وقتی حل پيش کرنا اور چيز ہے اور صحيح فتوی مطابقِ واقعہ ہونا امرِِ آخر ہے۔ مشکل یہ پيش آئ کہ وقتی حل کو دائمی حل سمجه ليا گيا، بهرحال ایک فضا سعودی رویت کو درست بنانے کی قائم کر دیگئ اور اسپر کسی حد تک عمل شروع بهی ہو گيا مگر جو علما تحقيق حق کر رہے تهے ان کا خمير نہ اس وقت مطمئن ہوا نہ اب مطمئن ہے اور وقتاً فوقتاً ایسے حالات پيش آتے رہتے رہے جس نے سعودی رویت کے دعوے کو غلط بتا دیا۔

اگر سعودی رویت کی اطلاع بالکل صحيح ہوتی تب توہميں کيا کسی فردِ مسلم کو بهی اس خبر کے قبول کرنےميں تانل نہ کرنا چاہیے مگر کئ برس کے مشاهدہ اور تجربہ کے بعد یہ بات کهل  کر سامنے آ رہی ہے کہ اکثر اوقات ميں ان کے ہاں رمضان و عيد کی اطلاع قبل از وقت ہو رہی ہے جسکی کهلی دليل یہ ہے کہ سعودی مملکت کی طرف سے رویت کے باوجود ایشيا اور افریقہ کے خطوں ميں جهاں مطالع صاف ہوتا ہے کهيں چاند کی رویت نهيں هوتی بلکہ امریکہ کينيڈا اور ویسٹ انڈیز کے ممالک جهاں سعودیہ کے غروبِ آفتاب کے بعد آٹه گنٹهوں کے بعد سورج غروب ہوتا ہے اور اکثر جگهوں پر مطلع صاف رهتا هے کهيں چاند نظر نهيں آتا۔

اسی شوال ١۴٢٣ بده کی شام سعودیہ سے عيد کے چاند کی خبر آگئ اور یهاں ہمارے ایک بڑے طبقہ نے سعودیہ کی مواقفت ميں عيد کر لی جبکہ اس دن امریکہ،کينيڈا،پانامہ اور بارباڈوس سب جگہ روزہ تها اور انهوں نے جمعہ کو عيد کی ہے یہ قصہ تقریباً ہر سال کا ہے۔ اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ جس رویت کی خبر پر ہم اطمئنان سے روزہ اور عيد کر رہے ہيں اسکے مفاسد پر اجمالی روشنی ڈالی جائے تاکہ اگر یہ چيز قابلِ اصلاح ہے تو اسکی اصلاح کی فکر کی جائے۔
جب سعودیہ کی رویت کی اطلاع قبل از وقت آیگئ تو حسبِ ذیل مفاسد پيدا ہوں گے

١۔ ماہِ شعبان ميں رمضان کا کم ازکم ایک روزہ ہونا جو حدیث لَا تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ (الحدیث) کے مخالف ہونے کے ساته ساته اسکو ملتزم ہے کہ لوگ اسے رمضان کا روزہ رکهکر سمجهينگے کہ ہم نے رمضان کا روزہ رکه ليا حالانکہ وہ رمضان کا روزہ ہے ہی نهيں

٢۔ شعبان کے ایک یا دو دن کو رمضان بنا دینا، جو آیت کریمہ إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ والی صورت ہے اہلِ جاهليت کسی اور غرض سے مهينوں کی تقدیم و تاخير کيا کرتے تهے یهاں دنوں ميں وہ عمل ہوتا رهتا ہے جو غلط ہے

٣۔ ماہِ رمضان ميں عيد کا ہونا۔ اسلئے کہ جب جلدی فيصلہ کر ليا جائيگا تو لامحالہ عيد کا چاند نہ ہو گا اور عيد کر لی جائيگی تو عيد رمضان کے آخری دن ميں ہو گی اور اس ميں ایک اور پڑی خرابی یہ ہو گی کہ

۔رمضان کے ایک روزہ کا فوت ہو جانا، جبکہ رمضان کا ہر روزہ فرضيت ميں برابر ہے اور جلدبازی کی صورت ميں اکژ و بيشتر ہی امت ایک فرض روزے کی تارک بن رہی ہے

۔ رمضان کو شوال بنانا جو نمبر دو کی طرح مذموم ہے
۔ بهت سے صلحاء شوال کے چهہ روزے رکهتے ہيں اور وہ فضيلت حاصل کرنے کيلئے عيد کے دوسرے ہی روز سے روزے رکهنا شروع کر دیتے ہيں اس صورت ميں انکا پهلا روزہ حقيقتاً عيد کا دن ہو گا جو لا تَصُومُوا هَذِهِ الأَيَّامَ کے صریح مخالف ہے اسطرح ایک اچها طبقہ اس منکر ميں مبتلا ہے کہ وہ عيد کے دن روزہ رکهتا ہے

٧۔ کتبِ حدیث و فقہ سے یہ مسئلہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی عبادت نماز روزہ قربانی وغيرہ کو وقت سے پهلے ادا کرنا نہ درست ہے نہ ہی وہ عبادت ادا ہو گی، ليکن اگر کسی عذر کی وجہ سے تاخير ہو گئ اور وقت گزرنے کے بعد ادا کيگئ تو وہ قضا کی صورت ميں بهی ادا ہو جائيگی اور فرض بهی ذمے سے ساقت ہو جائے گا مثلاً ظهر کی نماز زوال سے دو منٹ پہلے پڑه لی جائے کيسا ہی قوی عذر کيون نہ ہو وہ کسی طرح بهیادا نهيں ہو گی، اگر پڑه لی تو دوبارہ پڑهنا ضروری ہو گا ليکن اگر کسی معذوری کے سبب تاخير ہو گئ اور عصر کے وقت ادا کر لی تو ذمہ سے فرض ساقط ہو جائيگا اور عذر کی وجہ سے گناہ بهی نہ ہو گا۔ اسی طرح قربانی دسویں کو نہ ہو گيارویں بارویں کو بهی ہو سکتی هے ليکن اگر کسی نے نویں ذی الحجہ کو قربانی کر لی یا شهری نے عيد کی رات کو قربانی کر لی تو قربانی صحيح نہ ہو گی اسطرح کے کئی مسائل فقہ ہيں جو آپ کے علم ميں هيں۔

٨۔ جب کبهی بهی سعودیہ نے هلال کے سلسلے ميں جلد فيصلہ کيا تو ایشيا افریقہ اور مغربی ممالک ميں باوجود مطلع کے صاف ہونے کے اکثر و بيشتر چاند نظر نهيں آتا آخر یہ کيسے ممکن ہے کہ غروبِ آفتاب کے وقت سعودیہ کے مطلع پر تو چاند نظر آے اور امریکہ کينيڈا ویسٹ انڈیز جهاں سعودیہ سے آٹه گهنٹے بعد غروبِ آفتاب ہو باوجود مطلع صاف ہونے کے چاند نظر نہ آئے۔ چنانچہ اس سال بهی یهی واقعہ پيش آیا ، اسلئے اس موقع پر سعودیہ کا دعوی رویت کرنا خود اپنے دعوی کو مخدوش بنا دیتا ہے۔

٩۔ حدیث شریف ميں حکم ہے حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْقُرَشِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ ، ثنا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَمَضَانَ ، فَقَالَ : ” لا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلالَ ، وَلا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاثِينَ، یہاں چاند دیکهکر روزہ رکهنے اور چاند دیکهکر افطار کرنے کا حکم ہے آجکے اپنے احوال کا اگر جائزہ ليا جائے تو ہم نے اس حدیث پر عمل ہی چهوڑ دیا ہے۔ کيا موسم اور فضا کے ابرآلود ہونے کی شکل ميں ٣٠ شعبان یا ٣٠ رمضان پورے کرنے کی گنجائش نهيں ہے؟ اور اس صورت ميں بهی سعودیہ کا فيصلہ واجب العمل ہو گا؟ جبکہ تاخير کی صورت ميں کوئ نقصان نهيں ہےاور جلدی ميں خطرہ ہے کہ وہ فریضہ ادا ہی نہ ہو، ضرورت ہے کہ صرف اور صرف اُسی کے فيصلے پر مدار رکهے بغير کوئ ایسی تجویز اختيار کی جائے جسميں عجلت کے نقصانات سے حفاظت ہو جائے۔

١٠ ۔ حنفی نقطہ نگاہ سے ثبوتِ رمضان کی اطلاع ميں ایک عادل کی خبر بهی کافی ہے مگر هلالِ عيد کے ثبوت کيلئے اگر مطلع صاف ہو تو بڑی جماعت کی گواهی جن کی خبر سے علم (یعنی یقين و اطمینان) حاصل ہو ضروری ہے۔ وَإِنْ لَمْ يَكَنْ بِالسَّمَاءِ عِلَّةٌ لَمْ تُقْبَلْ إِلَّا شَهَادَةُ جَمْعٍ يَقَعُ الْعِلْمُ بِخَبَرِهِمْ کما فی الهدایۃ، جبکہ ان کے ہاں هلال عيد کے ثبوت ميں بهی دوایک فرد کی شهادت معتبر سمجه لی جاتی ہے۔

١١ ۔ اختلاف کا وجود، جب کبهی بهی سعودیہ کی جلد رویت کے مطابق فيصلہ کيا گيا تو پورے ملک ميں نزاع و خلاف اور اخبار ميں بحث و مباحثہ کی ایسی تيز ہوا چلتی ہے جسکا اثر ہر خاص و عام پر پڑهتا ہے اور جب وہ اطمینان سے ٣٠ شعبان یا ٣٠ رمضان پورے کر کے فيصلہ کرتا ہے تو پورے ملک ميں اطمینان و سکون کی لهر دوڈ جاتی ہے اور ایک ہی تاریخ ميں رمضان و عيد ہوتی ہے جيسا کہ گذشتہ دو ایک سال ميں ایسا بهی ہوا ہے، یہ اتفاق اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ ہم یهاں اپنی تاریخ کے مطابق هلال عيد و رمضان دیکهنے یا ثابت کرنے کی کو شش کریں۔ سعودیہ کی ابتداءِ ماہ هميشہ سے مختلف فيہ اور ما بہ النزاع رهی اور ہمارے تمام اکابر و مشائخ اسپر تذبذب کا اظهار کرتے رہے ہيں، اگر وہ تاریخ صحيح ہوا کرے تو هندوستان پاکستان والوں کيلئے اسکا حق زیادہ بنتا ہے بنسبت انگلينڈ والوں کيلئے۔ اسلئے کہ هندوپاک قریب ہے سعودیہ سے بنسبت برطانيہ کے، حضرت حکيم الامت تهانوی (رح) کا قول فتاوی رحيميۃ جلد سابع کے آخر ميں نقل کيا گيا هے (اس بات پر کہ حنفيہ کے یهاں اختلاف مطالع کا اعتبار نهيں ہے) کہ اگر سعودیہ کی رویت ثابت ہو جاے تو اهلِ هند پر اسکے مطابق رمضان و عيد کرنا ضروری ہو جایگا۔ یہ بات آج سے ساٹه ستر سال پهلے کی گئ ہے ليکن آج تک کبهی بهی اهلِ هند نے وہاں سےچاند کی اطلاع کی تحقيق نهيں کی، حالانکہ سعودیہ اور هندوپاک کے درميان صرف بحيرہ عرب حائل ہے اور وقت کا فاصلہ بهی کم ہے جبکہ سعودیہ اور انگلينڈ کے درميان دوگنا سے زیادہ فاصلہ ہے۔

١٢ ۔جب سعودیہ کی خبر پر فيصلے ہوتے رهينگے تو لوگ اور عوام الناس ، علماء اور ذمہ دار حضرات سے رفتہ رفتہ آزاد ہو کر خود ہی فيصلے شروع کر دینگے اسلئے کہ وہاں سے ٹيليفون اور ٹی وی اور سٹيلائٹ کا سلسلہ اس قدر عام ہے کہ اسپر عمل کرنا دشوار ہو جائيگا، چنانچہ یہ مشاهدہ ہو رہا ہے کہ کئ مرتبہ وہاں سے قبل مغرب ہی اطلاع حاصل کرکے لوگ خود هی اعلان اور شور شروع کر دیتے ہيں آئندہ لوگ مساجد کی طرف سے اعلان کا انتظار بهی نهيں کرینگے اسلئے یہ چيز بهت ہی غور کے قابل ہے۔

یہ چند اہم اہم مفاسد اور نقصانات ہيں قبل از وقت چاند کی اطلاع ملنے پر جنکی طرف اجمالی طور پر اشارہ کيا گيا ہے واقعہ یہ ہے کہ اس ملک کے مختلف فکروخيال کے ارباب حل و عقد اس موضوع پر اب سنجيدگی سے غوروفکر کر رہے هيں اور کسی بهتر حل کی تلاش ميں ہيں مگر ہمارا طبقہ علماء اهل و حق علماء دیوبند کا برسرِ اقتدار طبقہ نهایت خاموشی اختيار کئے ہوے ہے اور جس چيز کو مجبوری اور اضطرار کی حالت ميں کالميۃ للمضطر گنجائش اور جواز کا درجہ دیا گيا تها اسپر ایسا قانع ہے کہ اب وہی آخری حل معلوم ہوتا ہے۔

حالانکہ عجلت بازی ميں سراسر نقصان ہے، اور تاخير ميں ميں کوئ نقصان نهيں ہر عبادت اپنے اپنے وقت پر ادا ہو گی الحمد لله علمی ذوق رکهنے والے حضرات اور فکر و تحقيق کے خواہشمند احباب اور نئ نسل کے انگریزی لکهے پڑهے نوجوان مسلمان سعودیہ کے فيصلے کی کمزوری محسوس کر رہے ہيں لهذا ضرورت ہے کہ ہمارے علماء مل جل کر کے بيٹهيں عوام ابهی بهی علماء کے صحيح فيصلوں کے منتظر ہيں اور ان کے اس اقدام پر لبيک کهنے کو تيار ہيں اسلئے ایک ایک شهر کے علماء بهی کم از کم اس مسٰئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو اپنے یهاں کی مقامی مجلسِ عمل (جس نام سے بهی ہو) کے پليٹ فارم سے اسکی اشاعت کریں تو ایک مفيد اقدام ہو گا۔

علماء اهلِ حق کا شيوہ ہے کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن حيث وجدها فهو احق بها، نيز کسی فيصلہ کے غلط پہلو سامنے آ جایيں تو اس سے رجوع کرنے ميں ذرہ برابر عار محسوس نهيں کرتےہيں۔

احقر اپنے علم و تجربے کی حد تک یقين سے کهتا ہے کہ عوام ميں اس تبدیلی کے قبول کرنے کا پورا پورا جذبہ موجود ہے اسلئے کہ سعودیہ کے فيصلوں کے خلاف دیکه رہے ہيں آ  دن اسکا مشاهدہ ہو رہا ہے، حکمت و موعظت کيساته بيانات و خطبات اور عمومی و خصوصی مجالس ميں ان غلطيوں کی نشاندهی کی جاے تو کوئ وجہ فتنہ اور اختلاف کی نهيں ہے۔

آج بتاریخ ٣ مارچ ٢٠٠٣ بروز پير شام کو (جبکہ مقامی اسلامی تاریخ ٢٩ زوالحجۃ اور سعودی تاریخ ٣٠ تهی) مغرب سے پهلے اور مغرب کے بعد متصلاً مدینہ مسجد اور جامع مسجد بارباڈوس ویسٹ انڈیز کے چند علماء اور متعدد نمازی حضرات نے چاند دیکهيے کی کوشش کی پهر مغرب کی نماز پڑهتے ہی فوراً سمندر کے کنارے جو مغربی جانب تها محرم کا چاند دیکهنے کی کوشش کيگئی مگر چاند نظر نہ آیا جبکہ مطلع بالکل صاف تها اور بادل وغيرہ کچه بهی نهيں تها۔

نوٹ: دوسرے دن ۴ مارچ کی شام کو محرم کا چاند صاف نظر آیا اور بهت سے لوگوں نے اسکا مشاهدہ کيا جسکے حساب سے دو محرم بروز جمعہ ہو گی۔

آپ کی تحریر غور کے ساته پڑهی۔ اس سےقبل بهی یهاٰں سے لکها جا چکا ہےکہ اپنے قریبی ملک مراکش کی رویت کی خبر کی بنياد پر اپنے یهاں رویت کا اعلان کریں۔ بطریق موجب خبر کے آنے کا ایک مرتبہ انتطام کر لينا مناسب ہو گا۔سهولت پسندی ميں پڑه کر سعودی رویت کے مطابق اپنے یهاں رمضان وعيد کا اعلان کرنا درست نهيں۔اگر کوئ شرعی فتوی بهی اس طرح حاصل کياگيا ہے تو یہ شرعی اصول کے خلاف ہے۔ برطانيہ سےسعودیہ کی مسافت بهت لمبی هےجبکہ مراکش بالکل قریب ہے۔

مقام قریب کی رویت سے یکسر صرفِ نظر کر لينا فقهی اصول کے بهی خلاف ہے۔پهر سعودی رویت کا جو حال آپنے تحریر فرمایا هے،نيز اسکے مفاسد کی طرف جو توجہ دلائ ہے اس کو پڑهنے کے بعد بهی آنکه بند کرکے سعودیہ کی رویت پر اپنے یهاں فيصلہ نہ کرنا چاہيے۔آپ پوری قوت کے ساته مراکش کی رویت کے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کا رواج ڈاليں۔ یهی اقرب الی الصحۃ هے۔

http://www.wifaqululama.co.uk/moonsighting/fatawa/26-moroccomoon

[4]
واضع رہے کہ غير مسلم ممالک ميں رہنے والے مسلمان باشندوں پر لازم ہے کہ وہ خود اپنے ملک ميں چاند دیکهنے کا اہتمام کریں اور اپنے ملک کی رویت کا اعتبار کریں۔

جيسا کہ حدیث شریف ميں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْقُرَشِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ ، ثنا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَمَضَانَ ، فَقَالَ : ” لا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلالَ ، وَلا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاثِينَ

ایک دوسری حدیث شریف ميں ہے

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ عُمَرَ ، عَنِ السُّدِّيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاثِينَ

اگر اپنے ملک ميں چاند نہ دیکها جا سکتا ہو تو ایسی صورت ميں اپنے ملک کے قریب ترین جو بهی اسلامی ملک ہو تو اسی قریب ترین اسلامی ملک کی رویت کا اعتبار کریں، دور کے ممالک کی رویت کا اعتبا ر نہ ہو گا۔

لهذا صورت مسئولہ ميں برطانيہ کے مسلمانوں کيلئے شرعاً یہ ضروری ہے کہ مراکش اور الجزائر ميں سے جو ملک برطانيہ کے قریب ترین ہےاس کی رویت کا اعتبار کریں۔

سعودی عرب، پاکستان یا برطانيہ سے دور اور کسی ملک کی رویت کا اعتبار کرنا جائز نهيں  جيسا کہ علامہ کاسانی رحمہ الله فرماتے ہيں

هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع ، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر

محدث العصر حضرت مولانا علامہ سيّد محمد یوسف البنوری رحمہ الله رمطراز ہيں

حکم اللزوم فی البلاد المتاقربۃ کالبصرۃ و بغداد دون المتباعدۃ کالاندلس و خراسان، وهو المختا رعند بعد المشائخ الحنفيۃ، والمشهور عند الشافعيۃ، بل حکی الحافظ ابو عمر عليہ الاجماع

معارف السنن ج ۵ ص ٣۵

http://www.wifaqululama.co.uk/moonsighting/fatawa/30-binorimoon

[5]

Nadwatul Ulema

دریافت کردہ صورت ميں برطانيہ والوں کيلے اس ملک سے قریبی ملک کی رویت معتبر ہو گی۔مثلاً اگر مراکش ميں چاند دکهای پڑے اور اسکا شرعی ثبوت فراهم ہو جاےتو برطانيہ والوں کيلے وہاں کی رویت کا اعتبار کر کے حکم شرعی پر عمل کرنا ضروری ہو گا۔ مشهورومعروف عالمِ دین حضرت مولانا برهان الدین سنبهلی مدظلہ، شيخ التفسير دارلعلوم ندوۃالعلما لکهنو نے اس موضوع پر مستقل کتاب تصنيف فرمائ ہے اور اس مسئلہ کی تمام نوعيتوں کا جائزہ لينے کے بعد برِصغير کے ممتاز علما مثلاً مولانا یوسف بنوری عليہ الرحمۃ کا یہ فيصلہ نقل کياہے کہ یورپ ميں رہنے والوں کيلے یورپ سے قریب ترین اسلامی ممالک الجزائر،تيونس،مراکش وغيرہ کی رویت هلال کے فيصلوں پر عمل کرنا شرعاًمعتبر هو گا۔ رویت هلال کا مسئلہ ص ١۴٣ مطبع پاکستان

http://www.wifaqululama.co.uk/moonsighting/fatawa/34-nadwamoon

Darul Uloom Dabhil

http://www.wifaqululama.co.uk/moonsighting/fatawa/28-dhabelmoon

http://askimam.org/public/question_detail/16178

The source link of this answer has been removed. It was originally collected from Answerstofatawa.com, which no longer functions.

This answer was collected from AnswersToFatawa.com, which no longer exists. It was established by Moulana Hafizurrahman Fatehmahomed. He graduated from Jamiatul Ilm Wal Huda, Blackburn, UK with a distinction in Alimiyyah degree. He thereafter traveled to Darul Iftaa Mahmudiyyah, Durban, South Africa, to train as a Mufti under Mufti Ebrahim Desai (rah) and Mufti Husain Kadodia.

Read answers with similar topics: