Home » Hanafi Fiqh » DaruliftaaZambia.com » Augmented Reality (AR) emoji

Augmented Reality (AR) emoji

Answered as per Hanafi Fiqh by DaruliftaaZambia.com

Question

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

Hope you are keeping well

Mufti sahib what is the ruling regarding AR emojis?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

The Galaxy S9 AR Emoji feature works by creating an animated digital likeness of your face, which can then be used to record your facial expressions. The feature creates an avatar of you and allows you to tweak details like skin tone, hair, glasses, clothes, and more.

Once you’ve created your own likeness in 3D animated form, you can then record your facial expressions, and watch them animate the little character on the screen.

According to our understanding, AR Emojis fall into the same ruling of digital photography.

There are academic differences of opinions amongst contemporary Scholars on whether the various forms of digital photography constitute Tasweer (picture making) or not. The Darul Iftaa advises to adopt Taqwa and avoid all forms of digital photography. [1] [2]

And Allah Ta’āla Knows Best

Mufti Muhammad I.V Patel

Darul Iftaa Mahmudiyyah

Lusaka, Zambia

www.daruliftaazambia.com

[1]

فتاوى حقانية جلد ٢ صفحہ ٤٣٢

 

أحسن الفتاوى جلد ٣ صفحہ ٢٨٨

 

جوا ہر الفقہ جلد ٣ صفحہ٢٢٣

جیسے قلم سے تصویرکھینچنا ناجائز ہے ، ایسے ہی فوٹوسے تصویر بنانا یا پریس پر چھاپنا یا سانچے اورمشین وغیرہ میں ڈھالنایہ بھی ناجائز ہے

 

کتاب النوازل جلد ١٧ صفحہ ٩٨

موبائل کے ذریعہ تصویر کھینچنا اکثر علماء کے نزدیک ناجائز ہے؛ تاہم چوںکہ یہ تصویر چھوٹی ہوتی ہے، اور موبائل کے جیب وغیرہ میں ہونے کی وجہ سے ڈھکی رہتی ہے، اِس لئے ایسے موبائل کو رکھنے کے باوجود نماز میں کوئی خلل نہ آئے گا۔

 

المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة جلد ١٠صفحہ ٢٦٨

                    آج کل فیس بُک اور واٹس ایپ وغیرہ عام ہے، اور اس میں لوگ اپنی تصاویر چسپاں کرتے ہیں ، پھر ان کے دوست احباب فرینڈ لسٹ والے ’’ماشاء اللہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ لکھتے ہیں ، شرعاً یہ دونوں عمل درست نہیں ہیں ، کیوں کہ بغیر سخت ضرورت کے جاندار کی تصاویر بنانا ، اور فیس بُک میں ڈالنے کے لیے اپنی تصاویر بنانا شرعی ضرورت میں سے نہیں ہے، لہٰذا فیس بُک میں اپنی تصاویر چسپاں کرنا ، ناجائز ومنع ہے، اور پھر ان تصاویر پر تبصِرہ کرنا، اور ’’ماشاء اللہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ کہنا، یہ بھی ناجائز وگناہ ہے۔

 

حرمت تصویر ۔ علمائے عرب و عجم کے فتاوی

 

مفتی اعظم حضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا فتو یٰ

تصویربنانااوراس کواستعمال کرناشریعتِ مقدسہ نے ناجائز قرار دیا ہے ۔ فوٹولینابھی تصویربنانے کاایک طریقہ ہے ، پس وہ ناجائزہے ؛ جب کہ اس سے جان دارکی تصویربنائی جائے ۔ ہاں ! مکانات اورغیرذی روح مناظرکافوٹو لینا جائزہے ، جیساکہ ان کی ہاتھ سے تصویریں بنانی جائز ہیں ۔ شریعتِ مقدسہ نے جان داروں کی تصویریں بنانااورفوٹولیناایک مصلحت سے حرام فرمایاہے کہ غیراللہ کی تعظیم اور توقیرکاشائبہ بھی مسلمانوں میں نہ رہے ۔

[2] 

  فتح الملهم الجلد ٥ الصفحة ٩٨

قد اختلف العلماء في جواز التصوير بالكاميرا. قال بعضهم أنه يجوز وقال الآخرون لا، فتأمل:

القائلون بالجواز:

أما التلفزيون والفيديو فلا شك في حرمة استعمالها بالنظر إلى ما يشتملان عليه من المنكرات الكثيرة … ولكن هل ياتي فيهما حكم التصوير بحيث إذا كان التلفيزيون أو الفيديو خاليا من هذه المنكرات بأسرها هل يحرم بالنظر إلى كونه تصويرا؟ فإن لهذا العبد  الضعيف عفا الله عنه فيه وقفة، وذلك لأن الصورة المحرمة ما كانت منقوشة أو منحوتة بحيث يصبح لها صفة الإستقرار على شيء وهي الصورة التي كان الكفار يستعملونها للعبادة. أما الصورة التي ليس لها ثبات واستقرار وليست منقوشة على شيء بصفة دائمة فإنها بالظل أشبه منها بالصورة. فإن كانت صور الإنسان حية بحيث تبدوا على الشاشة في نفس الوقت الذي يظهر الانسان أمام الكاميرا فإن الصورة لاتستقر على الكاميرا ولا على الشاشة، وإنما هي أجزاء كهربائية تنتقل من الكاميرا إلى الشاشة وتظهر عليها بترتيب الأصلي ثم تنفى وتزول … فتنزيل هذه الصورة منزلة الصورة المستقرة مشكل 

 

الحلال والحرام في الاسلام للشيخ يوسف القرضاوي الصفحة ١١٤

اما تصوير اللوحات وتصوير الفوتوغرافي فقد قدمنا أن الأقرب إلي روح الشريعة فيهما هو الإباحة

 

فتاویٰ عثمانی جلد ٤   

 

فتاویٰ دینیہ جلد ٥ صفحہ ١٦٧

کیا موبائل سے تصویر کھینچنا خواص کے لئے جائز ہے یا نہیں ؟

تصویر کھینچنا ناجائز ہے اور اس میں گناہ کبیرہ ہے، البتہ موبائل میں ڈیجیٹل طریقہ پر تصویر کھینچی جاتی ہے اس میں تصویر نہیں بنتی اس لئے گناہ نہیں ہوگا، اس مسئلہ میں خواص اور عوام کا حکم ایک ہی ہے۔ فقط و اللہ تعالی اعلم

This answer was collected from Daruliftaazambia.com, which serves as a gateway to Darul Iftaa Mahmudiyyah – Lusaka, Zambia.

Read answers with similar topics: