Home » Hanafi Fiqh » DaruliftaaZambia.com » Comprehensive Insurance

Comprehensive Insurance

Answered as per Hanafi Fiqh by DaruliftaaZambia.com

Question

Does islam allow comprehensive insurance on motor vehicles and goods in transit to another country?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

It is harām to take out comprehensive insurance since it constitutes ribā (interest) [1], qimār (gambling) [2] and gharar (excessive uncertainty) [3] all of which are prohibited in Islam. However, if one is obliged by the law of the country to take out comprehensive insurance, one will be excused.[4]

And Allah Ta’āla Knows Best

Checked and Approved by,

Mufti Nabeel Valli.

Darul Iftaa Mahmudiyyah

Lusaka, Zambia

www.daruliftaazambia.com

__________________________

[1] وَأَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا 

[البقرة: 275]

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

[البقرة: 275]

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ

[البقرة: 276]

بینک انشورنس اور سرکاري قرضے (79) دار الکتاب دیوبند یوپي  

اس طور پر دیکھنے کے بعد انشورن اور سود میں اب بظاہر کوئي فرق نظر نہيں آتا کہ جس کي بنا پر ایک کو جائز اور دوسرے کو ناجائز کہا جاسکے ہاں “ربو” کي مذکورہ تعریف اور انشورنس میں ایک فرق یہ ضرور ہے کہ انشورنس میں ايک اضافي رقم کا ملنا کسي مقررہ حادثے پر موقوف ہوتا ہے اور “ربو” میں عموما ایسا نہیں ہوتا لیکن اس فرق سے “ربو” کے متحقق ہونے میں کوئي رکاوٹ نہیں پڑتي کیونکہ “ربو” کي تعریف میں منفي یا مثبت طور پر اس کا ذکر ہي نہیں ملتا بلکہ اس فرق نے انشورنس کے بارے میں مزید ایک دوسرے حرام معاملہ یعني قمار کا شبہ پیدا کردیا

 

 [2]   إِنَمَا الخَمْرُ وَالمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَيْطَنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

[المائدة:90]

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 403)

 (قوله لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص

اسلام اور جدید معاشي مسائل (290/7) ادارۃ اسلامیات

قمار اس لۓ کہ ایک طرف سے ادائیگي متعین ہے اور دوسري طرف سے ادائيگي موھوم ہے جو قسطیں ادا کي گئ ہيں وہ تمام رقم ڈوب بھي سکتي ہے

 

  [3] عمدة القاري (264/11) دار إحياء التراث العربي

وقد وردت أَحاديث كثيرة في النهي عن بيع الغرر منها ما رواه مسلم في (صحيحه) من حديث أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال (نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحصاة وعن بيع الغرر) وأخرجه الأربعة أيضا ومنها حديث ابن عمر رواه البيهقي من حديث نافع عنه قال (نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر) ومنها حديث ابن عباس رضي الله تعالى عنهما أخرجه ابن ماجه من حديث عطاء عنه قال (نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر) ومنها حديث أبي سعيد أخرجه ابن ماجه أيضا من حديث شهر بن حوشب عنه قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شراء ما في بطون الأنعام حتّى تضع وعما في ضروعها إلا بكيل وعن شراء العبد وهو آبق وعن شراء المغانم حتى تقسم وعن شراء الصدقات حتى تقبض وعن ضربة القانص) ومنها حديث علي رضي الله تعالى عنه أخرجه أبو داود وفيه قد نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع المضطر وبيع الغرر وبيع التمرة قبل أن تدرك ومنها حديث ابن مسعود أخرجه أحمد عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا تشتروا السمك في الماء فإنه غرر) ومنها حديث عمران بن الحصين رضي الله تعالى عنه أخرجه ابن أبي عاصم في كتاب البيوع أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع ما في ضروع الماشية قبل أن تحلب وعن بيع الجين في بطون الأنعام وعن بيع السمك في الماء وعن المضامين والملاقيح وحبل الحبلة وعن بيع الغرر

اسلام اور جدید معاشي مسائل (290/7) ادارۃ اسلامیات

غرر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ارکان عقد (ثمن مبیع یا اجل) میں سے کسي چيز کا مجہول ہونا اور غیر معین واقعے پر موقوف ہونا

فتاوی دار العلوم زکريا (449/5) زم زم پبلشرز

عام طور پر غرر وجہالت پیدا ہونے کے چند اسباب ہیں:

  • مبیع کا وجود ہی یقیني نہ ہو جیسے بھاگا ہوا غلام
  • مبیع کا وجود معلم ہو لیکن حصول غیر یقیني ہو جيسے فضاء ميں پرندہ – مچھلي پاني ميں
  • مبیع کي جنس ہي معلوم نہ ہو
  • جنس تو معلوم ہے لیکن سامان کي نوع معلوم نہيں ہے
  • مقدار معلوم ومتعین نہ ہو
  • بقاء یقیني نہ ہو جیسے ظاہر ہونے سے پہلے پھل کي بیع
  • اجل مجہول ہو

 

 [4] الأشباه والنظائر (73/1) دار الكتب العلمية

 الضرورات تبيح المحذورات

فتاوی دار العلوم زکريا (443/5) زم زم پبلشرز

اس لۓ مجبوري کي صورت ميں اس قسم کے انشورنس کي اجازت ہوگي

فتاوی محمودیۃ (388/16) دار الافتاء جامعیہ فاروقیۃ

لیکن اگر کوئي شخص ایسے مقام پر اور اسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کراۓ جان ومال کي حفاظت ہي نہ ہوسکتي ہو يا قانوني مجبوري ہو تو بیمہ کرانا درست ہے

احسن الفتاوی (25/7) ایچ ایم سعید کمپني

چونکہ گاڑي کے مالک کي طرف سے بیمہ کا معاہدہ بطبیب خاطر نہيں بلکہ حکومت کي طرف سے یکطرفہ جبر وظلم ہے لہذا بوقت ضرورت گنجائش ہے لیکن بصورت حادثۃ جمع کردہ رقم سے زائد واجب التصدق ہے

فتاوی رحیمیۃ  (132/6) دار الاشاعت

خلاصہ یہ کہ بیمہ قطعا ناجائز ہے مگر عارضي طور پر کچھ وقت کے لۓ جب تک خطرے کے حالات ہوں دکان وغیرہ کو فسادیوں کي ضرارت اور ظلم سے بچانے کے لۓ مذکورہ بالا شرائط (زائد رقم غرباء کو دیدي جاۓ اور اگر بحالت اضطرار کچھ اپنے کام میں لینے پر مجبور ہوجاۓ تو خوشحال ہونے پر اسے خيرات کدینے) کے ساتھ بیمہ کرالینے کي گنجائش ہے عام اجازت نہیں

This answer was collected from Daruliftaazambia.com, which serves as a gateway to Darul Iftaa Mahmudiyyah – Lusaka, Zambia.

Read answers with similar topics: