Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Is this job permissible or not?

Is this job permissible or not?

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

Respected MOulana,

I will be getting a job in big city in a bank in a software department and request for advise from you:

One of the jobs I will most likely be getting will be software test automation job in bank’s software development department working on customer data.

Is it permissible or not?

JazakAllah khairann

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

There are many software’s used by banks. Some of which have a singular purpose and others which have multiple purposes. If one will be conducting automation testing for software’s that may be used for multiple purposes, then it will be permissible.[1] However, if the software is used only for Haram purposes such as calculating interest etc., then to conduct automation testing for such singular purpose software’s and approving it’s use will not be permissible as that will be assisting in sin. Allah Ta’ala says:

وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ  (5:2)

Translation: “Do not assist in sin and enmity.”

The use of the software for Haram will be directly attributed to your approval.

If you require further advice, kindly email admin@daruliftaa.net

And Allah Ta’āla Knows Best

Hammad Ibn Ismail Jogiat

Student Darul Iftaa
Cambridge, Ontario, Canada

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

 


فتاوى عثماني – مفتى محمّد تقي عثماني –  مكتبة معارف القرآن (ج:3 ص:395)[1]

  بینک کی ملازمت کا تفصیلی حکم

 

    در  اصل بینک کی ملازمت نا جائز ہونےکی دو وجہیں ہو سکتی ہیں،ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہے کہ ملازمت میں سود وغیرہ کے نا جائز معاملات میں اعانت ہے،دوسرے یہ کہ تنخاہ حرام مال سے ملنے کا احتمال ہےان میں سے پہلی وجہیں یعنی حرام کاموں میں مدد  کا جہاں  تک تعلق ہے،شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں،ہر درجہ حرام نہیں،بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہےجو براہ راست  حرام کام میں ہوں،مثلا سودی معاملہ کرنا،سود کا معاملہ لکھنا،سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ-لیکن اگر براہ راست سودی معاملہ میں انسان کو ملوث نہ ہونا  پڑے، بلکہ اس کام کی نوعیت ایسی ہو جیسے  ڈرائیور،چپراسی،یا

جائز ریسرچ وغیرہ تو اس میں چونکہ براہ راست مدد نہیں ہے،اس لئے اس کی گنجا ئش ہے-جہاں تک حرام  مال سے تنخاہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے مین شریعت کا اصول ہے کہ اگرایک مال جلال وھرام سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہو تو اس سے تنخواہ یا ہدیہ لینا ناجائز  نہیں، لیکن اگر حرام مال کم ہو تو جائز ہے-بینک کا  صورت حال  یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا

ہے،1-اصل سرمایہ2-ڈپازیٹرز کے پیسے3-سود اور حرام کاموں کی آمدنی،4-جائز خدمات کی آمدنی،اس سارے مجموعے میں صرف نمبر3 حرام ہے،باقی کو حرام نہیں کہا جا سکتا، اور چونکہ ہر بینک میں نمبر 1 اور نمبر دو کی کثرت ہوتی ہے،اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجموعہ غالب ہے،لہذاکسی جائز کام کی تنخاہاس سے وصول کی جاسکتی ہے-یہ بنیاد ہےجس کی بناٰء پرعلماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے، البتہ احتیاط اس سے بھی اجتناب کیا جائے-

 

فتاوى دار العلوم زكريا – مفتى رضاء الحق –  زمزم ببليشر (ج:5 ص:659)

 ہاں بینک میں وہ شعبے جو سود سے متعلق نہیں ہے مثلا بینک میں چپراسي باورچي درائيونگ جاروب کشي وغیرہ کي ملازمت جائز اور درسست ہے اور تنخوااہ بھي حلال ہے

 

احسن الفتاوى – مفتى رشيد احمد لدهيانوى – ایچ ایم سعید (ج:7 ص:359)

 

نظام الفتاوى – مفتي نظام الدين اعظمى –  مكتبة رحمانيه (ج:1 ص:193)

 

اسلام اور جديد معاشى مسائل – مفتي محمّد تقي عثماني – اداره اسلاميت (ج:4 ص:135)

 

فتاوى حقانية – جامعة دار العلوم حقانية (ج:6 ص:258) 

 

 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: