Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Taking payout from insurance company

Taking payout from insurance company

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

Slms in 2012 i purchased a brand new car, before taking possession of the car i was required to take out insurance. (South African law) In 2018 my car got stolen. The insurance company “bought” the stolen car from me for market value of 91000.00 minus access of 30000. They made a payment of 60 000 into my account. My contribution was 45000. Am i entitled to full payment amount or only my contribution amount or no amount at all? 

If the car is found the insurance company takes ownership not me.

Answer

In the Name of Allaah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salaamu ‘alaykum wa-rahmatullaahi wa-barakaatuh.

In principle, conventional insurance is not permissible[1]. If one is required by law to take out conventional insurance, he will be excused[2]. In an unfortunate situation when the insurance company makes a payout, one may recover only the premiums paid and not more[3].

Accordingly, in the inquired situation, you may retain R45,000 from the R60,000 payout and give the remaining R15,000 as sadaqah to the poor and needy[4].

And Allaah Ta’aala Knows Best.

Muajul I. Chowdhury

Student, Darul Iftaa

Astoria, New York, USA

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

______


[1]  [البقرة: 278، 279] 

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279)}

[البقرة: 219] 

{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا}

الأصل للشيباني (2/ 419) 

وبلغنا عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه نهى عن شرى حَبَل الحَبَلَة، ونهى عن بيع الغرر

 

صحيح مسلم (3/ 1153) 

(1513) وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن إدريس، ويحيى بن سعيد، وأبو أسامة، عن عبيد الله، ح وحدثني زهير بن حرب، واللفظ له، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، حدثني أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحصاة، وعن بيع الغرر»

You may refer to Fatwa 39379 for further details. 

[2]  الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

مَا أُبِيحَ لِلضَّرُورَةِ يُقَدَّرُ بِقَدْرِهَا

فتاوى محموديه (16/ 387)

بیمہ میں سود بہی ہے اور جوا بہی یہ دونوں جیزیں ممنوع ہیں، بیمہ بہی ممنوع ہے، لیکن لیکن اگر کوئی شخص ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کراۓ جان و  مال کی حفاظت ہی نہ ہو سکتی ہو، یا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانا درست ہے

اسلام اور جدید معیشت و تجارت (ص 197)

اس وقت عالم اسلام کے تقریبا تمام مشاہر علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں

فتاوى دار العلوم زكريا (5/ 439)

فی زماننا انشورنس کا معاملہ جن بنیادوں پر استوار ہے ان کے تحت شرعی نقطہ نظر اور اصول وقواعد کی روشنی میں کسی بھی قسم کی املاک اور جائداد کو انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اور عدم جواز کا حکم دو ایسے محرمات کے پائے جانے کی وجہ سے ہے جن کی تحریم نصوص قطعیہ کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت اور ظاہر وباہر ہے، چنانچہ وہ دو مفاسد ربا وقمار کا پایہ جانا ہے، جس کی بنا پر یہ معاملہ ناجائز ہے 

فتاوى عثماني (3 / 314) 

انشورنس سود اور قمار پر مشتمل ہو نے کی بناء پر بالکل حرام ہے، البتہ جو انشورنس حکومت کی طرف سے لازمی ہو، مثلا موٹر وغیرہ کا بیمہ، اس کو مجبورا کرا سکتے ہیں، مگر جب رقم ملی تو صرف اتنی رقم ملے تو صرف اتنی رقم خود استعمال کر سکتے ہیں جتنی خود داخل کی تہی، اس سے زائد نہیں

جامع الفتاوى (6/ 309) 

بیمہ کی جو موجودہ صورتیں رائج ہیں وہ شرعی نقطہ نظرسےصحیح نہیں بلکہ قمار اور جوا کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ اس لئے اپنے اختیار سے بیمہ کرانا جائز نہیں اور اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے بیمہ کرانا پڑے تو اپنی ادا کردہ رقم سے زیادہ وصول کرنا درست نہیں چونکہ بیمہ کا کاروبار درست نہیں اس لئے بیمہ کمپنی میں ملازمت بھی صحیح نہیں۔ 

جامع الفتاوى (6/ 312) 

بیمہ سود وقمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو اسی پر اکتفائ کیا جائے۔

[3]  فتاوى عثماني (3/ 544) 

[4]  حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 385)

ويردونها على أربابها إن عرفوهم ، وإِلا تصدقوا بها لِأَن سبِيل الكسب الْخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه

 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (8/ 229) 

وإلا يتصدقوا به؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد

 

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (6/ 27) 

وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه.

 

احسن الفتاوى (7/ 16)

فتاوى محموديه (16/ 381) 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: