Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Am I allowed to take out insurance on the car in order for me to purchase it?

Am I allowed to take out insurance on the car in order for me to purchase it?

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

Respected  mufti 

I wish to purchase a new car ,in order for them to release the car I will have to take out insurance as these are the rules which they abide by. 

Am I allowed to take out insurance on the car in order for me to purchase it ?

Some insurance companies allow you to cancel the insurance at anytime as well 

I will also like to know is there any vehicle insurance which is permissible in Islam 

Shukran 

Answer

In the Name of Allaah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

According to Shariah, all conventional insurance schemes are prohibited due to interest, gambling and uncertainty[i].

If one is required by law to take out conventional insurance for the purchase of a car, one will be exempted. In that instance, one should take out the minimum insurance scheme.[ii]

We are not aware of any Shariah compliant vehicle insurance scheme. However, if the financing of the motor vehicle is based on the Ijarah model, then the insurance premium could be built in the monthly premium as a standard installment (أجرة).

And Allaah Ta’aala Knows Best

Muajul I. Chowdhury

Student Darul Iftaa

New York, USA

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

 

 


[i]  [البقرة: 278، 279]

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279)}

[البقرة: 219] 

{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا}

 (الأصل للشيباني ط قطر 2/ 419) 

وبلغنا عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه نهى عن شرى حَبَل الحَبَلَة، ونهى عن بيع الغرر

 

[ii]  (الأشباه والنظائر لابن نجيم ص: 73)

الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ

 (الأشباه والنظائر لابن نجيم ص: 73)

مَا أُبِيحَ لِلضَّرُورَةِ يُقَدَّرُ بِقَدْرِهَا

(فتاوى محموديه ج16 ص387)

بیمہ میں سود بہی ہے اور جوا بہی یہ دونوں جیزیں ممنوع ہیں، بیمہ بہی ممنوع ہے، لیکن لیکن اگر کوئی شخص ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کراۓ جان و  مال کی حفاظت ہی نہ ہو سکتی ہو، یا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانا درست ہے

 (اسلام اور جدید معیشت و تجارت،ص 197)  

اس وقت عالم اسلام کے تقریبا تمام مشاہر علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں

(فتاوى دار العلوم زكريا 5/439)

فی زماننا انشورنس کا معاملہ جن بنیادوں پر استوار ہے ان کے تحت شرعی نقطہ نظر اور اصول وقواعد کی روشنی میں کسی بھی قسم کی املاک اور جائداد کو انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اور عدم جواز کا حکم دو ایسے محرمات کے پائے جانے کی وجہ سے ہے جن کی تحریم نصوص قطعیہ کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت اور ظاہر وباہر ہے، چنانچہ وہ دو مفاسد ربا وقمار کا پایہ جانا ہے، جس کی بنا پر یہ معاملہ ناجائز ہے 

(فتاوى عثماني 3 /314)  

انشورنس سود اور قمار پر مشتمل ہو نے کی بناء پر بالکل حرام ہے، البتہ جو انشورنس حکومت کی طرف سے لازمی ہو، مثلا موٹر وغیرہ کا بیمہ، اس کو مجبورا کرا سکتے ہیں، مگر جب رقم ملی تو صرف اتنی رقم ملے تو صرف اتنی رقم خود استعمال کر سکتے ہیں جتنی خود داخل کی تہی، اس سے زائد نہیں

(جامع الفتاوى 6/309) 

بیمہ کی جو موجودہ صورتیں رائج ہیں وہ شرعی نقطہ نظرسےصحیح نہیں بلکہ قمار اور جوا کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ اس لئے اپنے اختیار سے بیمہ کرانا جائز نہیں اور اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے بیمہ کرانا پڑے تو اپنی ادا کردہ رقم سے زیادہ وصول کرنا درست نہیں چونکہ بیمہ کا کاروبار درست نہیں اس لئے بیمہ کمپنی میں ملازمت بھی صحیح نہیں۔ 

(جامع الفتاوى 6/312) 

بیمہ سود وقمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو اسی پر اکتفائ کیا جائے۔

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: