Salaam, Is it permissible to purchase Apple Care (extended warranty/Insurance) when bought with the Iphone or computer as shown below.
AppleCare+ for iPhone is an insurance product that provides expert telephone technical support (1) and up to two years (2) of additional hardware coverage, including up to two incidents of accidental damage, each subject to a £55 excess fee (3).
AppleCare+ benefits are separate from a consumer’s right to a free of charge repair or replacement, by the seller, of goods which do not conform with the contract of sale. Under English law, consumers have up to six years from the date of delivery to exercise their rights; however, various factors may impact your eligibility to receive these remedies. For more details,
http://www.apple.com/uk/legal/statutory-warranty/
In the Name of Allaah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-salaamu ‘alaykum wa-rahmatullaahi wa-barakaatuh.
One may purchase AppleCare+ (an extended warranty) at the time of purchasing the Apple device[1]. The amount for the extended warranty could be included in the price of the device and be regarded as the purchase price of the device. It is not permissible to purchase a separate extended warranty after concluding the purchase of the device[2].
And Allaah Ta’aala Knows Best.
Ibn al-Fawz
Student, Darul Iftaa
United States of America
Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.
_______
[1] فقه البيوع (1/ 501)
[2] [البقرة: 278، 279]
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279)}
[البقرة: 219]
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا}
الأصل للشيباني (2/ 419)
وبلغنا عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه نهى عن شرى حَبَل الحَبَلَة، ونهى عن بيع الغرر
صحيح مسلم (3/ 1153)
(1513) وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن إدريس، ويحيى بن سعيد، وأبو أسامة، عن عبيد الله، ح وحدثني زهير بن حرب، واللفظ له، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، حدثني أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحصاة، وعن بيع الغرر»
You may refer #39379 for further details.
فتاوى محموديه (16/ 387)
بیمہ میں سود بہی ہے اور جوا بہی یہ دونوں جیزیں ممنوع ہیں، بیمہ بہی ممنوع ہے، لیکن لیکن اگر کوئی شخص ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کراۓ جان و مال کی حفاظت ہی نہ ہو سکتی ہو، یا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانا درست ہے
اسلام اور جدید معیشت و تجارت (ص 197 )
اس وقت عالم اسلام کے تقریبا تمام مشاہر علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں
فتاوى عثماني (3 / 314)
انشورنس سود اور قمار پر مشتمل ہو نے کی بناء پر بالکل حرام ہے، البتہ جو انشورنس حکومت کی طرف سے لازمی ہو، مثلا موٹر وغیرہ کا بیمہ، اس کو مجبورا کرا سکتے ہیں، مگر جب رقم ملی تو صرف اتنی رقم ملے تو صرف اتنی رقم خود استعمال کر سکتے ہیں جتنی خود داخل کی تہی، اس سے زائد نہیں
جامع الفتاوى (6/ 309)
بیمہ کی جو موجودہ صورتیں رائج ہیں وہ شرعی نقطہ نظرسےصحیح نہیں بلکہ قمار اور جوا کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ اس لئے اپنے اختیار سے بیمہ کرانا جائز نہیں اور اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے بیمہ کرانا پڑے تو اپنی ادا کردہ رقم سے زیادہ وصول کرنا درست نہیں چونکہ بیمہ کا کاروبار درست نہیں اس لئے بیمہ کمپنی میں ملازمت بھی صحیح نہیں۔………………
بیمہ سود وقمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو اسی پر اکتفائ کیا جائے۔
فتاوى دار العلوم زكريا (5/ 439)
فی زماننا انشورنس کا معاملہ جن بنیادوں پر استوار ہے ان کے تحت شرعی نقطہ نظر اور اصول وقواعد کی روشنی میں کسی بھی قسم کی املاک اور جائداد کو انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اور عدم جواز کا حکم دو ایسے محرمات کے پائے جانے کی وجہ سے ہے جن کی تحریم نصوص قطعیہ کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت اور ظاہر وباہر ہے، چنانچہ وہ دو مفاسد ربا وقمار کا پایہ جانا ہے، جس کی بنا پر یہ معاملہ ناجائز ہے