Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Store warranty for printer

Store warranty for printer

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

Assalamualaikum,

I recently purchased a new printer for my computer; it came with a one year manufacturer’s warranty. All retail stores offer an additional term store warranty for the payment of an additional amount, and this warranty comes into effect on the expiry of the manufacturer’s warranty and it covers the equipment for repairs, if required, after the manufacturer’s warranty has expired.

My question is, will this additional warranty purchase be classified more as an insurance against malfunction of the equipment or just an additional warranty? – Will this additional warranty purchase be permissible under these circumstances?

Answer

In the Name of Allaah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salaamu ‘alaykum wa-rahmatullaahi wa-barakaatuh.

In principle, insurance and separate extended warranty is impermissible. However, if it the extended warranty is purchased at the time of purchasing an item, then the amount for the extended warranty could be included in the price of the item and be regarded as the purchase price of the item[1]. It is not permissible to purchase a separate extended warranty after concluding the purchase of the item[2].

In the enquired situation, if the additional term store warranty was purchased along with the printer in the same transaction, then it will be permissible, but if it was purchased afterwards, then it will not be permissible.

And Allaah Ta’aala Knows Best.

Ibn al-Fawz

Student, Darul Iftaa

USA

Checked and Approved by,

Mufti Ebrahim Desai.

_______

 


[1] فقه البيوع (1/ 501)

 

[2]  [البقرة: 278، 279]

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279)}

 

[البقرة: 219]

{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا}

 

 الأصل للشيباني (2/ 419)

وبلغنا عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه نهى عن شرى حَبَل الحَبَلَة، ونهى عن بيع الغرر

 

صحيح مسلم (3/ 1153)

(1513) وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن إدريس، ويحيى بن سعيد، وأبو أسامة، عن عبيد الله، ح وحدثني زهير بن حرب، واللفظ له، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، حدثني أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحصاة، وعن بيع الغرر»

 

You may refer #39379 

فتاوى محموديه (16/ 387)

بیمہ میں سود بہی ہے اور جوا بہی یہ دونوں جیزیں ممنوع ہیں، بیمہ بہی ممنوع ہے، لیکن لیکن اگر کوئی شخص ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کراۓ جان و  مال کی حفاظت ہی نہ ہو سکتی ہو، یا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانا درست ہے

 

اسلام اور جدید معیشت و تجارت (ص 197 )

اس وقت عالم اسلام کے تقریبا تمام مشاہر علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں

 

فتاوى عثماني (3 / 314) 

انشورنس سود اور قمار پر مشتمل ہو نے کی بناء پر بالکل حرام ہے، البتہ جو انشورنس حکومت کی طرف سے لازمی ہو، مثلا موٹر وغیرہ کا بیمہ، اس کو مجبورا کرا سکتے ہیں، مگر جب رقم ملی تو صرف اتنی رقم ملے تو صرف اتنی رقم خود استعمال کر سکتے ہیں جتنی خود داخل کی تہی، اس سے زائد نہیں

 

جامع الفتاوى (6/ 309)

بیمہ کی جو موجودہ صورتیں رائج ہیں وہ شرعی نقطہ نظرسےصحیح نہیں بلکہ قمار اور جوا کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ اس لئے اپنے اختیار سے بیمہ کرانا جائز نہیں اور اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے بیمہ کرانا پڑے تو اپنی ادا کردہ رقم سے زیادہ وصول کرنا درست نہیں چونکہ بیمہ کا کاروبار درست نہیں اس لئے بیمہ کمپنی میں ملازمت بھی صحیح نہیں۔………………

بیمہ سود وقمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو اسی پر اکتفائ کیا جائے۔

 

فتاوى دار العلوم زكريا (5/ 439)

فی زماننا انشورنس کا معاملہ جن بنیادوں پر استوار ہے ان کے تحت شرعی نقطہ نظر اور اصول وقواعد کی روشنی میں کسی بھی قسم کی املاک اور جائداد کو انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اور عدم جواز کا حکم دو ایسے محرمات کے پائے جانے کی وجہ سے ہے جن کی تحریم نصوص قطعیہ کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت اور ظاہر وباہر ہے، چنانچہ وہ دو مفاسد ربا وقمار کا پایہ جانا ہے، جس کی بنا پر یہ معاملہ ناجائز ہے 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: