Home » Hanafi Fiqh » DaruliftaaZambia.com » Accepting year end gifts from Commercial Banks

Accepting year end gifts from Commercial Banks

Answered as per Hanafi Fiqh by DaruliftaaZambia.com

Question

As Muslims are, we allowed to accept Xmas and year end gifts etc from the commercial banks?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

In principle, it is permissible to accept gifts from Non-Muslims on condition the item itself is halaal and accepting the gift does not cause harm to the Deen.

The money stored in a bank is not all interest money, rather the income of the bank comprises of multiple avenues. [1]

Accordingly, there is leeway in accepting gifts from Commercial Banks at year-end as long as the gift is not accepted in reverence and honour of their festivals. [2]

Ibn Abi Shaybah Rahimahullah narrated that a woman asked ‘Aishah RadiAllahu Anha: [3]

We have some wet nurses from among the Magians, and they have a festival on which they bring us gifts. She said: As for what is slaughtered for that day, do not eat it, but eat from their vegetables.

(Musannaf Ibn Abi Shaybah, Volume 6, Page 432)

Ali Radhiallahu Anhu was also offered a gift on the day of Nairooz. [4]

However, if one exercises restraint and does not accept gifts from Non-Muslims on their festivals, that will be preferable as one will be acting on Taqwa.[5]

 

And Allah Ta’āla Knows Best

 

Mufti Muhammad I.V Patel

 

Darul Iftaa Mahmudiyyah
Lusaka, Zambia

[1]

فتاوى قاضيخان (244/3)

و إن كان غالب مال المهدي من الحلال لا بأس بأن يقبل الهدية و يأكل ما لم يتبين عنده أنه حرام لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فيعتبر الغالب

 

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (5/ 367)

وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه

 

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 529)

وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ غَالِبُ مَالِ الْمُهْدِي إنْ حَلَالًا لَا بَأْسَ بِقَبُولِ هَدِيَّتِهِ وَأَكْلِ مَالِهِ مَا لَمْ يَتَبَيَّنْ أَنَّهُ مِنْ حَرَامٍ؛ لِأَنَّ أَمْوَالَ النَّاسِ لَا يَخْلُو عَنْ حَرَامٍ فَيُعْتَبَرُ الْغَالِبُ وَإِنْ غَالَبَ مَالَهُ الْحَرَامُ لَا يَقْبَلُهَا وَلَا يَأْكُلُ إلَّا إذَا قَالَ إنَّهُ حَلَالٌ أُورِثْتُهُ وَاسْتَقْرَضْتُهُ وَلِهَذَا قَالَ أَصْحَابُنَا لَوْ أَخَذَ مُورِثُهُ رِشْوَةً أَوْ ظُلْمًا إنْ عَلِمَ وَارِثُهُ ذَلِكَ بِعَيْنِهِ لَا يَحِلُّ لَهُ أَخْذُهُ وَإِنْ لَمْ يَعْلَمْهُ بِعَيْنِهِ لَهُ أَخَذَهُ حُكْمًا لَا دِيَانَةً فَيَتَصَدَّقُ بِهِ بِنِيَّةِ الْخُصَمَاءِ

 

عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل اور ان کا حل جلد2  صفحہ197   

بنک والے اور کمپنیوں والے کارڈ ہول ڈر  کو جو انعامات دیتے ہیں ان کا لینا اور استعمال کرنا جائز ہے

فتاؤي دار العلوم زكريا جلد5 ص 380 زمزم

بنک والے اور کمپنی والے کارڈ ہول ڈر  کو جو انعامات دیتے ہیں ان کا لینا اور استعمال کرنا جائز ہے

  

[2]

فتاویٰ رشیدیہ صفحہ ٥٧٥

ہندو تہوار ہولی، دیوالی کی پوڑی وغیرہ کھانا درست ہے

 

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ١ صفحہ٨٦ 

یہاں پر اکثر غیرمسلم ہندو، عیسائی، سکھ وغیرہ رہتے ہیں، لیکن جب ان میں سے کسی کا کوئی تہوار یا اور کوئی دن آتا ہے تو یہ حضرات اپنے اسٹاف کے حضرات کو خوشی میں کچھ مشروبات اور دیگر اشیاء وغیرہ نوش کرنے کے لئے دیتے ہیں، کیا ایسے موقع پر ان کا کھانا پینا مسلمانوں کے لئے درست ہے یا نہیں
ج… غیرمسلم کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے، بشرطیکہ ناپاک نہ ہو۔

 

امداد الفتاوی جدید جلد ٨ صفحہ ٦٦

ان روایات سے مہادات مسئول عنہا کے احکام کی تفصیل معلوم ہوگئی کہ اگر کوئی ضرر دینی نہ ہو تو کفار مصالحین سے ہدایا کا لین دین جائز ہے

 

فتاوی قاسمیہ جلد ٢٤ صفحہ٢٣٩

دیوالی کے موقع پرغیر مسلم، مسلمانوں کو تحفہ میں مٹھائی کاڈبہ دیتے ہیں اس کا نہ لینا بہتر ہے؛ لیکن اگر ظاہرداری اور مصلحت سے لے لیا توشرعًا اس کا کھانا بلا کراہت جائز ہے؛ اسلئے کہ بنفسہ وہ چیز حلال ہوتی ہے۔

 

صفحہ ٢٤٥

محلہ داری اور پڑوس کی بناء پر کافروں کے ساتھ میل جول رکھنا، اور آپس میں ایک دوسرے کو مٹھائی وغیرہ لینا دینا جائز ہے؛ لیکن نہ لینا اولیٰ ہے۔

 

صفحہ ٢٤٨

اگر غیر مسلم اپنا احسان سمجھ کر دیتے ہیں یا یہ سمجھ کر دیتے ہیں کہ مسلمان ہمارے اس تہوار میں شریک ہوگئے تو لینا ناجائز ہے۔

اور اگر ایسا نہیں ہے؛ بلکہ محض خوشی میں بطور تحفہ پیش کردیتے ہیں تو گنجائش ہے

 

کتاب النوازل جلد ١٦ صفحہ ٣٤٨

ولی یا دیوالی پر محض تہوار کی خوشی میں جو مٹھائی بھیجی جاتی ہے، اسے لینے کی گنجائش ہے؛ لیکن اگر یہ پتہ چل جائے کہ وہ چڑھاوے کی ہے تو اُسے لینے کی اجازت نہیں

 

[3]

مصنف ابن أبي شيبة (6/ 432)

32673 – حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ امْرَأَةً، سَأَلَتْ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: إِنَّ لَنَا إِطَارًا مِنَ الْمَجُوسِ وَإِنَّهُمْ يَكُونُ لَهُمُ الْعِيدُ فَيُهْدُونَ لَنَا , فَقَالَتْ: أَمَّا مَا ذُبِحَ لِذَلِكَ الْيَوْمِ فَلَا تَأْكُلُوا , وَلَكِنْ كُلُوا مِنْ أَشْجَارِهِمْ

 

[4]

السنن الكبرى للبيهقي (9/ 392)

 أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ، ثنا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِهَدِيَّةِ النَّيْرُوزِ فَقَالَ: مَا هَذِهِ؟ قَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا يَوْمُ النَّيْرُوزِ , قَالَ: فَاصْنَعُوا كُلَّ يَوْمٍ فَيْرُوزَ. قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: كَرِهَ أَنْ يَقُولَ نَيْرُوزَ. قَالَ الشَّيْخُ: وَفِي هَذَا كَالْكَرَاهَةِ لِتَخْصِيصِ يَوْمٍ بِذَلِكَ لَمْ يَجْعَلْهُ الشَّرْعُ مَخْصُوصًا بِهِ

 

[5]

فتاویٰ عبد الحی اردو :ج ١ الصفحة ٢٠١

لا ینبغی للمومن ان یقبل هدية کافر فی یوم عید و لو قبل لا یعطیهم ولا یرسل الیهم

 

غیر مسلم ملکوں میں آباد مسلمانوں کے مسائل اور ان کا شرعی حل

اس طرح سابقہ تفصیلات سے حکم شرعی یہ منقح ہو کر سامنے آتا ہے کہ غیر مسلموں کے غیر مذہبی تحائف قبول کرنا شرح صدر اور حالات کے مطابق جائز ہے ، اور اگر حالات اجازت نہ دیں یا غیر مسلم کی نیت و عمل پر اطمینان نہ ہو تو قبول کرنا مناسب نہیں، اور مذہبی تحائف اگر بتوں پر چڑھائے ہوئے ہوں تو قبول کرنا جائز نہیں اور اگر بتوں پر چڑھائے ہوئے نہ ہوں تو قبول کرنا جائز ہے ۔

 

This answer was collected from Daruliftaazambia.com, which serves as a gateway to Darul Iftaa Mahmudiyyah – Lusaka, Zambia.

Read answers with similar topics: