Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Urine drops remains in my private part, what is the solution?

Urine drops remains in my private part, what is the solution?

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

Assalam o alekum,my problem is that after I have urinated, some urine remains in my penis, I usually put a tissue paper to absorb it and then I continue with my work, but even if I go to wash it after 2 hours, urine less then a drop amount is still in the penis and it is actually very exhausting and discomforting to remove it and to be sure that all of it has been removed.Please help me.Jazakallah Khairun

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘Alaikum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

After relieving yourself, you should practice “Istibraa.” That is, ensure all the urine drops are removed, for example, by gently squeezing the private part from below or/and cough or/and bend towards the right or the left. [1]

Continue this until you feel all the remaining drops of urine are discharged from the urethra. After this, wash your private part.

You should also sprinkle water around your private parts and your undergarments to avoid waswasa (undue doubts). Then ignore any thought you may have after that. You could attribute the thought of perceived wetness to the sprinkled water. [2]

If you practice on Istibraa, your problem would be hopefully solved In Sha Allah.

Refer to Fatwa #16737, 37423 and 41811 for more details on Istibraa:

And Allah Ta’āla Knows Best

Rabiul Islam

Student Darul Iftaa
Detroit, Michigan, USA 

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

______


[1]  الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 344 م: دار الفكر-بيروت) ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ)

كتاب الطهارة. فصل في الاستنجاء:

يجب الاستبراء بمشي أو تنحنح أو نوم على شقه الأيسر، ويختلف بطباع الناس.

•———————————•

(قوله: يجب الاستبراء إلخ) هو طلب البراءة من الخارج بشيء مما ذكره الشارح حتى يستيقن بزوال الأثر

وعبر بالوجوب تبعا للدرر وغيرها، وبعضهم عبر بأنه فرض وبعضهم بلفظ ينبغي وعليه فهو مندوب كما صرح به بعض الشافعية، ومحله إذا أمن خروج شيء بعده فيندب ذلك مبالغة في الاستبراء أو المراد الاستبراء بخصوص هذه الأشياء من نحو المشي والتنحنح، أما نفس الاستبراء حتى يطمئن قلبه بزوال الرشح فهو فرض وهو المراد بالوجوب، ولذا قال الشرنبلالي: يلزم الرجل الاستبراء حتى يزول أثر البول ويطمئن قلبه. وقال: عبرت باللزوم لكونه أقوى من الواجب؛ لأن هذا يفوت الجواز لفوته فلا يصح له الشروع في الوضوء حتى يطمئن بزوال الرشح. اهـ.

(قوله: أو تنحنح) لأن العروق ممتدة من الحلق إلى الذكر وبالتنحنح تتحرك وتقذف ما في مجرى البول. اهـ. ضياء. (قوله: ويختلف إلخ) هذا هو الصحيح فمن وقع في قلبه أنه صار طاهرا جاز له أن يستنجي؛ لأن كل أحد أعلم بحاله ضياء.

قلت: ومن كان بطيء الاستبراء فليفتل نحو ورقة مثل الشعيرة ويحتشي بها في الإحليل فإنها تتشرب ما بقي من أثر الرطوبة التي يخاف خروجها، وينبغي أن يغيبها في المحل لئلا تذهب الرطوبة إلى طرفها الخارج،

 

البناية شرح الهداية (1/ 744 م: دار الكتب العلمية – بيروت، لبنان) أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)

كتاب الطهارة. فصل في الاستنجاء:

وأما الاستبراء فهو طلب البراءة وهو أن يركض برجله على الأرض حتى يزول عنه…

 

الفتاوى الهندية المعروفة بالفتاوى العالمكيرية في المذهب الإمام الأعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله تعالي (1/ 48 م: دار الفكر) العلّامة الهمام مولانا الشيح نظام الدين البلخي وجماعة من علماء الهند الأعلام)

كتاب الطهارة وفيه سبعة أبواب. الباب السابع في النجاسة وأحكامها وفيه ثلاثة فصول. الفصل الثالث في الاستنجاء:

والاستنجاء بالماء أفضل إن أمكنه ذلك من غير كشف العورة وإن احتاج إلى كشف العورة يستنجي بالحجر ولا يستنجي بالماء. كذا في فتاوى قاضي خان والأفضل أن يجمع بينهما. كذا في التبيين قيل هو سنة في زماننا وقيل على الإطلاق وهو الصحيح وعليه الفتوى. كذا في السراج الوهاج.

 

فتاوی محمودیہ (جلد: 5  ص: 292-289 مکتبہ: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی) فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوھی قدس سرّہ مفتی اعظم ھند و دار العلوم دیوبند

كتاب الطهارة. باب الاستنجاء:

صفحه 290: ڈھیلے سے استنجاء كرنا:

مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے ڈھیلے سے استنجاء کیا جاۓ، اس کے بعد پانی سے، لیکن اگر کوئی شخص بڑا استنجاء ڈھیلے سے نہ کرے بلکہ پانی ہی سے کرے اور صفائی کامل ہو جاۓ، يه بھی جائز ہے۔

آج کل اهل تجربہ کی راۓ ہے کہ پیشاب کے بعد قطره اکثر آدمیوں کو آتا ہے اور شاذ و نادر ہی کوئی شخص اس سے مستثنی ہوگا، اس لئے چھوٹا استنجا پانی سے کرنے سے پہل ڈھیلے سے کرنے کی تاکید کرتے ہیں، کیونکہ اگر بعد میں قطرہ آیا تو اس سے کپڑ ابھی ناپاک ہوگا اور پہلا استنجاء بھی بیکار ہو جاۓگا اور جو وضوء کے بعد آیا تو ناقض ہوگا، اس لئے پہلے ڈھیلے سے اطمینان کر لینا چاہئے۔

صفحه 291: اگر اولًا مٹی اور ڈھیلے سے صفائی کر لی جاۓ اس کے بعد پانی سے پاک کیا جاۓ تو صفائی خوب حاصل ہو جاتی ہے۔

 

احسن الفتاوی (ج: 2 ص: 107-104  مکتبہ: ایچ ایم سعید کمپنی) فقیہ العصر مفتی اعظم حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالی

كتاب الطهارة. فصل في الاستنجاء:

استبراء كا معهود طريقه:

حضرات فقهاء رحمهم اللہ تعالی نے پیشاب کے قطرات خشک کرنے کے لئے يه معهود طريقه بیان فرمایا هے جس کی وجه بعض علماء یہ بیان فرماتے ہیں کہ پہلے زمانے میں مثانے قوی تھے اس لئے قطرات آنے کا احتمال نہ تھا، اس دور میں مثانے میں وہ قوت نہیں رہی، اس لئے اس طریق سے قطرات کی صفائی کی ضرورت پيش آئی، لهذا فقهاء رحمهم اللہ تعالی کا بیان کردہ یہ طریقه حضور اکرم صلى الله عليه وسلم اورصحابه کرام رضی الله تعالى عنهم کے قول وعمل پر زیادتی نہیں کہ اسے بدعت کہا جاۓ، بلکه تغییر زمان کی بنا پر موجودہ زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے تنظيف وتطهير کا ایک طريقه ہونے کی وجہ سے يه بھی عمل بالحديث هى شمار هوگا۔

وجہ مذكوره پر یہ اشکال ہے کہ پیشاب کے بعد قطرات کا آنا ضعف مثانہ کی بنا پر نہیں ہوتا، ضعف مثانہ کی وجہ سے جو عارضہ لاحق ہوتا ہے اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کھانسے جھپنکنے ادرکودنے وغیرہ سے قطره خارج ہوتا ہے اور جسے یہ مرض لاحق ہوتا ہے اسے استبراء کا معهود طریقہ بھی کوئی فائدہ نہیں دیتا، پیشاب کے بعد رطوبت نظر آنے کا باعث ضعف مثانه نہیں بلکہ پیشاب کی نالی کا طول اور اس میں پیچ وخم اس کا باعث بنتے ہیں، طبی نقطۂ نگاہ سے يه امر مسلم ہونے کے علاوہ اس پر یہ دلیل بھی ہے کہ حضرت فقهار رحمهم اللہ تعالی نے عورتوں کے لئے استبراء کا یہ طريقه تحرير نهیں فرمایا بلکہ اسے مردوں کے ساتھ مخصوص رکھا ہے، قال ابن عابدین رحمه الله تعالي (قوله يجب الاستبراء…الاخ) وفيها أن المرأة كالرجل الا في الاستبراء فانه لا استبراء عليها بل كما فرغت تصبر ساعة لطيفة ثم تستنجي، ومثله في الإمداد. ( الشامية ص۳۱۹ ج ۱) اس سے ثابت ہوا کہ استبراء کے اس معهود طريقے کی علت ضعف مثانہ نہیں، اس لئے کہ اگر یہ علت ہوتی تو يه حکم عورتوں کے لئے بھی ہوتا، عورتوں میں چونکہ پیشاب کی نالی طویل اور خمدار نہیں اس لئے ان کو مستثنی کیا گیا۔

جب استبراء کی علت يه ٹهری تو معهود طريقے کی بجائے ایک اور آسان اور مختصر طريقہ اختیار کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ پیشاب سے فراغت کے بعد پہلے پاخانے کے مقام سےخصیتین کی طرف  رگوں کو سونتا جاۓ اس کے بعد پیشاب کی نالی کو سونت دیا جاۓ تو راستے میں جو رطوبت ہوگی وہ خارج ہو جائیگی اس کے بعد قطره آنے کا کوئی احتمال نہیں رہتا، بندہ نے متعدد بار اس کا تجربہ کیا کہ اس طریقے کے بعد کئی سو قدم بہت تیزی سے چلا۔ کھانسا، کودا، بھاگا، کئی بیٹھکیں لگائیں اس کے باوجود کوئی رطوبت نظر نہیں آئی۔

اس تحقیق کے بعد اصل اشکال پھر عود کر آ تا ہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں بھی یہ علت موجود تھی تو آپ نے اس قسم کے استبراء کا حکم کیوں نہیں دیا اور صحابہ کرام رضی الله تعالى عنهم نے اس کا اہتمام کیوں نہیں فرمایا، غور کر نے کے بعد اس کا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شریعت نے ابتلاء عام کے مواقع پر نجاست قلیلہ کو معاف قرار دیا ہے، جیسے کہ رشاش البول کرؤس الابرة اور بیت الخلاءمیں مکھیوں وغیرہ کا غلاظت پر بیٹھنے کے بعد جسم اور کپڑوں پر بیٹھنا اورطين شارع وغیرہ، اس قانون کا تقاضا یہ ہے کہ استبراء کا کوئی بھی طریقہ استعال کرنا ضروری نہیں بلکہ وقت پر نجاست مرئیہ کو ڈھیلے یا پانی سے صاف کر دنیا کافی ہے اس کے بعد اگر غیر محسوس طور پر کچھ رطوبت رہتی ہے تو وہ شرعا معاف ہے۔ معہذا  چونکہ احادیث میں استبراء کی بہت تاکید اور عدم اجتناب من البول پر وعید شدید وارد ہوئی ہے اس لئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے بطریق بالا استبراء کا اہتمام کیا جاۓ، یعنی پیشاب کی نالی کو سونت کر رطوبت خارج کر دی جاۓ اس کے بعد ڈھیلے یا پانی سے استنجاء کر دیا جاۓ، افضل یہ ہے کہ پہلے ڈھیلے سے نجاست زائل کی جاۓ اور اس کے بعد پانی استعمال کیا جاۓ، البتہ آجکل شہروں میں گٹر سسٹم کی وجہ سے ڈھیلے کا استعمال بہت تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے، ڈھیلے پھینکنے سے پانی کا راستہ بند ہو جاتا ہے جو سخت تعفن اور ایذاء کا باعث بنتا ہے، پھر ان کی صفائی میں بھی بہت دقت پیش آتی ہے لہذا ایسے مواقع میں ڈھیلے کا استعمال نہیں کرنا چاہیۓ۔ ڈھیلے کا استعمال مستحب ہے اور اپنے نفس کو اور دوسروں کو مصیبت میں ڈالنا حرام ہے۔ کسی مستحب کام کی خاطر حرام کا ارتکاب جائز نہیں، البتہ صفائی کی غرض سے جو جاذب کاغذ بازار میں ملتا ہے اس کا استعمال جائز ہے،

پیشاب سے احتراز کا اہتمام کرنا بلاشه مؤکد ہے مگر اس میں زیادہ غلو کرنا شرعا درست نہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ پیشاب کے بارے میں بہت شدت سے کام لیتے تھے۔۔۔ 

 

226 – حدّثنا مُحَمَّدُ بنُ عَرْعَرَةَ قَالَ حَدثنَا شُعْبَةُ عنْ منْصُورٍ عنْ أبي وَائِلٍ قَالَ كانَ أبُو مُوسَى الاشْعَرِيُّ يُشَدِّدُ فِي البَوْلِ ويَقُولُ إنَّ بَني إسْرَائِيلَ كانَ إِذا أَصابَ ثَوْبَ أَحَدِهِمْ فَرَضَهُ فقالَ حُذَيْفَةُ لَيْتَهُ اَمْسَكَ أَتَى رسولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم سُباطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قائِماً. عمدة القاري شرح صحيح البخاري (3/ 137)

•———————————•

قَوْله: (يشدد) ، جملَة فِي مَحل النصب على أَنه خبر: كَانَ، وَمَعْنَاهُ: كَانَ يحْتَاط عَظِيما فِي الِاحْتِرَاز عَن رشاشاته، حَتَّى كَانَ يَبُول فِي القارورة خوفًا أَن يُصِيبهُ من رشاشاته شَيْء. عمدة القاري شرح صحيح البخاري (3/ 138)

 

  [2]سنن الترمذي ت بشار (1/ 104 م: دار الغرب الإسلامي – بيروت) محمد بن عيسى، أبو عيسى الترمذي (المتوفى: 279هـ)

1 – أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. 38 – بَابٌ فِي النَّضْحِ بَعْدَ الْوُضُوءِ:

50 – حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَحْمَدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدِ اللهِ السَّلِيمِيُّ الْبَصْرِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: جَاءَنِي جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَضِحْ.

هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ. وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي الْحَكَمِ بْنِ سُفْيَانَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَزَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ. وقَالَ بَعْضُهُمْ سُفْيَانُ بْنُ الْحَكَمِ، أَوِ الْحَكَمُ بْنُ سُفْيَانَ، وَاضْطَرَبُوا فِي هَذَا الْحَدِيثِ.

 

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (1/ 293 م: دار الرسالة العالمية) ابن ماجة – وماجة اسم أبيه يزيد – أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني (المتوفى: 273هـ)

أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا. 58 – بَابُ مَا جَاءَ فِي النَّضْحِ بَعْدَ الْوُضُوءِ:

463 – حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ سَلَمَةَ الْيَحْمِدِيُّ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَضِحْ” (1).

__________

(1) إسناده ضعيف جدًا، الحسن بن علي الهاشمي متفق على ضعفه.

وأخرجه الترمذي (50)، والعقيلي في “الضعفاء” 1/ 234، وابن عدي في “الكامل” 2/ 733 من طريق سلم بن قتيبة، بهذا الإسناد، ولفظه: أن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: “جاءني جبريل، فقال: يا محمَّد، إذا توضات فانتضح”، من قول جبريل.

 

البناية شرح الهداية (1/ 313 م: دار الكتب العلمية – بيروت، لبنان) أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)

وقال الجمهور: الانتضاح نضح الفرج بماء قليل بعد الوضوء لينفي عنه الوسواس.

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: