Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Is the usage of the snapchat social media service permissible?

Is the usage of the snapchat social media service permissible?

Is the usage of the snapchat social media service permissible? If not, what differentiates it from video calling services provided from skype, oovoo or facetime?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

Snapchat is the same as Skype, oovoo and facetime. They fall in the category of picture making which is prohibited .

And Allah Ta’āla Knows Best

Hafizurrahman Fatehmahomed 

Student Darul Iftaa
Netherlands 

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

 

 

 

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَدْخُلُ المَلاَئِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلاَ تَصَاوِيرُ

Abu Talha (radiyalahi anhu) narrates that the Prophet (sallalahu alayhi wa sallam) has said “Angels (of mercy) do not enter a house wherein there is a dog or a picture (of an animate object).

(تكمله فتح الملهم ج4,ص159)

فالحاصل أن المنع من اتخاذ الصور مجمع عليه فيما بين الائمة الأربع إذا كانت مجسدة أما غير المجسدة منها فاتفق الأمة الأثلاثة علي حرمتها أيضا قولا واحدا و المختار عند المالكية كراهتها لكن ذهب بعد المالكية إلي جوازها 

(تكمله فتح الملهم ج4,ص164)

فان الفقهاء استثنوا مواضع الضرورة من الحرمةز قال الأمام محمد في السير الكبير :((و ان تحققت الحاجة له إلي اسنعمال السلاح الذي فيه تمثال فلا بأس باستعماله)) و أعقبه السرخسي في شرحه 2:287 بقوله ((ان المسلمين يتبايعون بدراهم الأعاجم فيها التماثيل بالتيحان, و لايمنع أحد عن المعاملة بذالك))  

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (22/ 70)

وَفِي التَّوْضِيح قَالَ أَصْحَابنَا وَغَيرهم تَصْوِير صُورَة الْحَيَوَان حرَام أَشد التَّحْرِيم وَهُوَ من الْكَبَائِر وَسَوَاء صنعه لما يمتهن أَو لغيره فَحَرَام بِكُل حَال لِأَن فِيهِ مضاهاة لخلق الله وَسَوَاء كَانَ فِي ثوب أَو بِسَاط أَو دِينَار أَو دِرْهَم أَو فلس أَو إِنَاء أَو حَائِط وَأما مَا لَيْسَ فِيهِ صُورَة حَيَوَان كالشجر وَنَحْوه فَلَيْسَ بِحرَام وَسَوَاء كَانَ فِي هَذَا كُله مَا لَهُ ظلّ وَمَا لَا ظلّ لَهُ وَبِمَعْنَاهُ قَالَ جمَاعَة الْعلمَاء مَالك وَالثَّوْري وَأَبُو حنيفَة وَغَيرهم

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 29)

وَهَذِهِ الْكَرَاهَةُ تَحْرِيمِيَّةٌ وَظَاهِرُ كَلَامِ النَّوَوِيِّ فِي شَرْحِ مُسْلِمٍ الْإِجْمَاعُ عَلَى تَحْرِيمِ تَصْوِيرِهِ صُورَةَ الْحَيَوَانِ وَأَنَّهُ قَالَ قَالَ أَصْحَابُنَا وَغَيْرُهُمْ مِنْ الْعُلَمَاءِ تَصْوِيرُ صُوَرِ الْحَيَوَانِ حَرَامٌ شَدِيدُ التَّحْرِيمِ وَهُوَ مِنْ الْكَبَائِرِ لِأَنَّهُ مُتَوَعَّدٌ عَلَيْهِ بِهَذَا الْوَعِيدِ الشَّدِيدِ الْمَذْكُورِ فِي الْأَحَادِيثِ يَعْنِي مِثْلَ مَا فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُصَوِّرُونَ يُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ» ثُمَّ قَالَ وَسَوَاءٌ صَنَعَهُ لِمَا يُمْتَهَنُ أَوْ لِغَيْرِهِ فَصَنْعَتُهُ حَرَامٌ عَلَى كُلِّ حَالٍ لِأَنَّ فِيهِ مُضَاهَاةً لِخَلْقِ اللَّهِ تَعَالَى وَسَوَاءٌ كَانَ فِي ثَوْبٍ أَوْ بِسَاطٍ أَوْ دِرْهَمٍ وَدِينَارٍ وَفَلْسٍ وَإِنَاءٍ وَحَائِطٍ وَغَيْرِهَا اهـ.

فَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ حَرَامًا لَا مَكْرُوهًا إنْ ثَبَتَ الْإِجْمَاعُ أَوْ قَطْعِيَّةُ الدَّلِيلِ لِتَوَاتُرِهِ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 647)

وَظَاهِرُ كَلَامِ النَّوَوِيِّ فِي شَرْحِ مُسْلِمٍ الْإِجْمَاعُ عَلَى تَحْرِيمِ تَصْوِيرِ الْحَيَوَانِ، وَقَالَ: وَسَوَاءٌ صَنَعَهُ لِمَا يُمْتَهَنُ أَوْ لِغَيْرِهِ، فَصَنْعَتُهُ حَرَامٌ بِكُلِّ حَالٍ لِأَنَّ فِيهِ مُضَاهَاةَ لِخَلْقِ اللَّهِ تَعَالَى، وَسَوَاءٌ كَانَ فِي ثَوْبٍ أَوْ بِسَاطٍ أَوْ دِرْهَمٍ وَإِنَاءٍ وَحَائِطٍ وَغَيْرِهَا اهـ فَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ حَرَامًا لَا مَكْرُوهًا إنْ ثَبَتَ الْإِجْمَاعُ أَوْ قَطْعِيَّةُ الدَّلِيلِ بِتَوَاتُرِهِ اهـ

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 116)

وَكَذَا النَّهْيُ إنَّمَا جَاءَ عَنْ تَصْوِيرِ ذِي الرُّوحِ لِمَا رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – أَنَّهُ قَالَ: مَنْ صَوَّرَ تِمْثَالَ ذِي الرُّوحِ كُلِّفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْ يَنْفُخَ فِيهِ الرُّوحَ، وَلَيْسَ بِنَافِخٍ فَأَمَّا لَا نَهْيَ عَنْ تَصْوِيرِ مَا لَا رُوحَ لَهُ لِمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – أَنَّهُ نَهَى مُصَوِّرًا عَنْ التَّصْوِيرِ؛ فَقَالَ: كَيْفَ أَصْنَعُ وَهُوَ كَسْبِي؟ فَقَالَ: إنْ لَمْ يَكُنْ بُدٌّ فَعَلَيْكَ بِتِمْثَالِ الْأَشْجَارِ

حقیقت یہ ہے کہ نقش و نگار کے ذریعہ بنائی ہوئی تصاویر اور عکس تصاویر کے درمیان جو تفریق ہے، اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے- شریعت کا اصول یہ ہے کہ جو چیز اصلا حرام ہے، اور غیر مشروع ہو، آلہ کے بدل جانے سے اس کا حکم نہیں بدلتا، مثلا شراب حرام ہے، چاہے اس کو ہاتہ سے بنایا گیا ہو، چاہے جدید مشینوں کے ذریعہ بنا یا گیا ہو۔۔۔یہی معاملہ تصویر کا ہے، شرعیت نے تصویر بنانے اور رکہنے کو منع فرمایا ہے، لہاذا اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ تصویر مصور کے برش سے بنائی گئ ہو یا کیمرہ کے ذریعہ کہکنچی گئ ہو – (فقہی مقالات، ج4، ص130 )

رہا یہ کہ فٹو گرافی در حقیقت عکاسی ہے جیسے آئنہ اور پانی میں یہی ہے کہ آئنہ و غیرہ کا عکس پائیدار نہیں ہوتا اور فوٹو کا عکس مسالہ لگا کر قائم کر لیا جا تا ہے پس  وہ اسی وقت تک عکس ہے جب تک مسالہ سے اسے قائم نہ کیا جائے اور جب اس کو کسی طریقہ سے قائم اور پائییدار کر لیا جاۓ وہی تصویر بن جاتا ہے – رہا یہ کہ فوٹو گرافر مسالہ لگاتے ہوۓ اعضاء کی تخلیق نہیں بناتا تا تو کیا ڈہلی ہوئی مورتیں اور مجسمے بہی جائز کردیے جائیں گے اس کا تو حاصل وہی ہوا کہ آج کل تصویر کشی کا طریقہ وہ نہیں جو پہلے تہا _(امداد الاحکام، ج4، ص384 )

خلاصہ یہ ہے کہ فوٹوگرافی کو تصویر سازی سے الگ کوئی چیز سمجہنا اور بذریعہ  فوٹو حاصل  شدہ تصویر کو تصاویر نہ کہنا ایک بدیہی غلطی اور خالص نفس کا فریب ہے، جس میں بہت سے متدین حضرات اور بعض علماء تک مبلا ہو گۓ ہیں – ( جواہر الفقہ، ج7، ص236 ) 

جیسے قلم سے تصویر کہیجنا ناجائز ہے اسے ہی فوٹو سے تصویر بنانا یا پریس پر چہاپنا یا سانچہ وغیرہ میں ڈہالنا یہ بہی ناجائز ہے – – ( جواہر الفقہ، ج7، ص246 )

تصویر سے مراد کسی شخص کی صورت بنانا ہے، خواہ اس کا مجسمۃ بنایاجاۓ، یا دیوارں پر پینت وغیرہ کے ذریعہ عکسی تصویر کہنچی جاۓ، یہ تمام صورتیں  اس میں داخل ہیں، اور بلا ضرورت تصویر کہنچنے او کہچوانے والے لوگ اس وعید کے مصداق ہیں – (کتاب الفتاوی، ج6، ص165 )

کسی بہی جاندار کی تصویر بنانا سخت حرام اور گناہ کبیرہ ہے،خواہ تصویر کسی بہی قسم کی ہو ۔۔۔قلم سے بنائی جاۓ یا کیمرے سے- اسے طرح تصویر کا پریس میں چہاپنا، مشین یا سانچے میں ڈہالنا بہی ناجائز ہے –(احسن الفتاوی، ج8،ص437 ) 

قال الشيخ محمد بخيت : فاخذ الصورة بالفوتغرافيا الذي هو عبارة عن الحبس الظل بالوسائط المعلومة لارباب هذه الصناعة ليس من التصوير المنهي عنه في شيئ لان التصوير المنهي عنه هو ايجاد صورة و صنع صورة لم تكن موجودة و لا مصنوعة من قبل (الجواب الشافي في اباحة التصوير الفوتوغرافي، ص23، مخطوط) 

اور دلیل میں فرمایا کہ حدیث میں تصویر کی جو ممانعت کی علت بیان فرمائی ہے وہ ہے “مشابہت بخلق اللہ” اور اللہ کی تخلیق سے مشابہت اسی وقت ہو سکتی ہے جب کوئی شخص اپنے تصویر اور تخیل سے اور اپنے ذہن سے اپنے ہاتہ کے ذریعہ کوئی صورت بناۓ – اور کیمرے کی تصویر میں اپنے تخیل کو کوئی دخل نہیں ہو تا، بلکہ کیمرے کی تصویر میں یہ ہو ت ہے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ایک مخلوق پہلے سے موجود ہے، اس مخلوق کا عکس لے کر اس کو محفوظ کر لیا- لہذا مشابہت بخلق اللہ نہی پائی گی بلکہ یہ حبس الظل ہے جو کہ ناجائز نہیں – یہ ان کا موقف تہا (تقریر ترمذی، ج2، ص350 )

قال الشيخ مصطفي الحمامي في الكتاب (( النهضة الاصلاحية)) ص264 و 565: (( و إني أحب أن تجزم الجزم كله أن التصاوير بآلة التصوير (الفوتوغراف) كالتصويرباليد تماما، فيحرم علي المؤمن تسليطها للتصوير، و يحرم عليه التمكين مسلطها لالتقاط صورته بها، لانه بهذا التمكين يعين علي فعل المحرم غليظ، و ليس من الصواب في شيئ ما ذهب إليه أحد علماء عصرنا هذا من اصتباحة التصوير بتلك الالة بحجة أن التصوير ما كان باليد، و التصوير بهذه الالة لا دخل لليد فيه فلايكون حراما- و هذا عندي أشبه بمن يرسل أسد مفترسا فيقول من يقول، أو يفتح تيارا كهربائيا يعدم كل اتهام بالقتل قال: : أنا لم اقتل، انما قتل السم و الكهرباء و الاسد …(تكملة فتح الملهم، ج4، ص162- 163 ) 

ہندوپاک کے علماء نے ان کو قبول نہیں کیا اور یہ کہا کہ مشابہت بخلق اللہ ہر صورت میں متحقق ہو جا تی ہے، چاہے آدمی ایسی چیز کی تصویر بناۓ جو پہلے سے موجود ہو اور چاہے ایسی چیز کی تصویر بناۓجو چیز پہے سے موجو نہ ہو اور وہ پنے تخیل سے وہ صورت بنا رہا ہو- علامہ محمد بخیط نے یہ جو فرمایا کہ جو چیز پہلے سے موجود ہو اس کی تصویر بنانا جائز ہے تو پہر ہر تصویر جائز ہو نی چاہۓ چاہے وہ ہاتہ سے بنائی جاۓ یا کیمرے کے ذریعہ بنائی جاۓ، حلنکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جس پردے پر نکیر فرمائی تہی اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کے گہوڑے کی تصویر بنی ہوئی تہی اور اس کو اللہ تعالی نے پیدا فرمایا تہا – لہذا اس کی تصویر کوئی خیالی چیز کی تصویر نہیں تہی لیکن اس کے باوجود آپ نے اس پر نکیر فرمائی – (تقریر ترمذی، ج2، ص349-350 )

و قال شيخ محمد علي الصابوني في رسالته “حكم الاسلام في التصوير” ص15 و في تفسير آيات الاحكام(( إن التصوير الشمس لايخرج عن كونه نوعا من أنواع التصوير. فيما يخرج بالالة يسمي صورة و الشخص مصورا، فهو و إن كان لايشمله النص الصريح، لانه ليس تصويرا باليد، و ليس فيه مضاهاة لخلق الله، الا أنه لايخرج عن كونه ضربا من ضروب التصوير، فينبغي أن يقتصر في الاباحة علي حد الضرورة )) …(تكملة فتح الملهم، ج4، ص163 )

یکن استعمال تصویر کی ممانعت احادیث میں مذکور ہے اس می سے چار قسم کی تصویریں شرعا مستثنی ہیں اور فقہاء مذاہب نے ان کو مستثنی قرار دیا ہے-

اول سر کٹی ہوئی تصیر (2) وہ تصویر جو پامال و ذلیل ہوں (3) اتنی چھوٹی کہ اگر کھڑےہو کر اور تصویر کو زمیین پر رکہ کر دیکھا جاۓ تو اعضاء کی تشریح پوری نظر نہ آۓ (4) بچوں کی گریا جو مکمل نہ ہوں- بلکیہ نا تمام تصویریں جیسے پہلی بچوں کی ہوا کرتی تھیں (فتاوی دار العلوم ریوبن، ج2،ص827)

اما التمفزيون والفديو فال شك فى حرمت استعماليما بالنظر الى ما يشتمالن عميو من المنكرات الكثيرة, ومن الخالعة والمجون, والكشف عن النساء المتبرجات أو العاريات, وما إلي ذلك من أسباب الفسوق. ولكن ىل يتأتي فييما حكم التصوير بحيث إذا كان التمفزون أو الف ليذا ّ يديو خاليا من ىذه المنك ارت بأسرىا، ىل يحرم بالنظر إلي كونو تصوي ار؟ فان مة ما كانت منقوشة أو ّ الصورة المحر ّ العبد الضعيف, عفا ا﵀ عنو، فيو وقفة. وذلك ألن منحوتة بحيث يصبح ليا صفة األستقر ار عمي شيئ، وىي الصورة التي كان الكفار يستعممونيا لمعبادة. أما الصورة التي ليس ليا ثبات واستقرار، وليست منقوشة عمي شيئ مة، فإنيا بالظ ّل ال بصفة دائ أشبو منيا بالصورة. ويبدو أن صورة التمفزيون والفيديو ّ تستقر عمي شيئ في مرحمة من المراحل إال إذا كان في صو رة “فيمم”. فإن كانت صور اإلنسان ّشاشة فى نفس ة بحيث تبدو عمى ال ّ حي الوقت الذى يظير فيو اإلنسان أمام الكيمرا، فإن ّما ىى أج ازء كيربائية تنتقل من الكيم ار ن ّشاشة ، وا ّ عمى الكيم ار وال عمى ال الصورة التستقر ، ثم تفنى وتزول. وأما إذا احتفظ بالصورة فى ّ ّشاشة وتظير عمييا بترتيبيا األصمى إلى ال ّص شريط الفيديو، فإن ور التنقش عمى ا ال لشريط نما تحفظ فييا األج ازء الكيربائية التى وا ّش ليس فييا صورة اشة ظيرت مرة أخرى بذلك الترتيب فإذا ظيرت ىذه األج ازء عمى ال ، ولكن ليس ليا ثبات وال ّ الطبيعى إ نما ىى تظير وتفن ستق ارر عمى الشاشة، وا ى. فاليبدو أن ىنالك مرحمة من المراحل تنتقش فييا الصورة عمى شيئ بصفة مستقرة أو دائمة. وعمى ىذا، فتنزيل ىذه الصورة منزلة الصورة المستقرة مشكل (تكملة فتح الملهم: ج4 ص164 )

تصویر وہ ہوتی ہے جس کو کسی چیز پر علی صفت دوام ثابت اور مستقر کردیا جاۓ- لہاذا اگر وہ تصویر علی صفت دوام کسی چیز پر پابت اور مستقر نہیں ہے تو پہر وہ تصویر نہیں ہے- لہذا براہ راست دکہاۓ جانے والی تصویر عکس ہے ، تصویر نہیں ( تقریر ترمذی، ج2، ص351 )

See – Television and digital images at : https://dl.dropboxusercontent.com/u/104253012/ebook%20Television%20and%20Digital%20Images%20–%20In%20Response%20to%20the%20Mufti%27s%20Invitation%20revised.pdf

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: