Home » Hanafi Fiqh » DaruliftaaZambia.com » Remuneration for leading Taraweeh Salaah

Remuneration for leading Taraweeh Salaah

Answered as per Hanafi Fiqh by DaruliftaaZambia.com

Question

Over here Bengali Masaajid have a culture of collecting funds for the hifz people who lead tarawih salaat. Do we do that in Zambia. Also is it permissible or a bida’a?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

Taraweeh Salah is a very great act of Ibadah and should be lead for the sole purpose of pleasing Allah Ta’āla.

It is not permissible to offer remuneration to a Hafidh for leading Taraweeh Salah nor is it permissible for the Hafidh to demand it. [1]

However, if no remuneration was agreed upon nor is it a custom to remunerate the Huffaadh leading Taraweeh Salah and the committee members occasionally give them some sort of gifts, it will be permissible to receive them. [2]

Some ‘Ulama are of the opinion that it is permissible to remunerate Huffaadh and Imams for leading Taraweeh Salaah. 3

And Allah Ta’āla Knows Best

Checked and Approved by

Mufti Nabeel Valli.

Darul Iftaa Mahmudiyyah

Lusaka, Zambia

www.daruliftaazambia.com

درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 233) [1]

(وَلَمْ تَصِحَّ الْإِجَارَةُ لِلْأَذَانِ وَالْإِمَامَةِ وَالْحَجِّ وَتَعْلِيمِ الْقُرْآنِ وَالْفِقْهِ وَالْغِنَاءِ وَالْمَلَاهِي وَالنَّوْحِ)

 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 55)

 (قوله ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله – عليه الصلاة والسلام – «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به» وفي آخر ما عهد رسول الله – صلى الله عليه وسلم – إلى عمرو بن العاص «وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا» ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة هداية

 

 أحسن الفتاوى: جلد 3 ، ص  514 . سعيد

سؤال: رمضان میں ختم قران پر قاری اور سامع اگر کچھ معاوضہ طے نہ کرں، ویسے ہی اہل مسجد انکی کچھ خدمت کردیں یا کپڑوں کا جوڑا بنادیں تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

 

الجواب باسم ملهم الصواب

 خدمت کے نام سے نقد یا کپڑے وغیرہ دینا بھی معاوضہ ہی ہے اور اجرت طے کرنے کی بنسبت زیادہ نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں دوگناه ہیں، ایک قرآن سنانے پر اجرت کا گناہ اور دوسرا جہالت اجرت کا گناه.

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قاری اور سامع بھی للہ کام کرتے ہیں اور ہم بھی للہ انکی خدمت کرتے ہیں معاوضہ مقصود نہیں، ایسے حیلہ بازوں کی نیت معلوم کرنے کے لئے حضرات فقہاء رحمہم اللہ تعالی نے یہ امتحان رکھا ہے کہ اگر قاری اور سامع کو کچھ بھی نہ ملے تو وہ آئندہ کبھی اس مسجد میں خدمت کے لئے آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور اہل مسجد کا امتحان یہ ہے کہ اگر یہ قاری اور سامع انکی مسجد میں نہ آئیں تو بھی یہ لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں یا نہیں؟ اب دور حاضر کے لوگوں کو اس کسوٹی پر لائے، قاری اور سامع کو اگر کسی مسجد سے کچھ نہ ملا تو آئندہ وہ اس مسجد کی طرف رخ بھی نہیں کرینگے اور اھل مسجد کا یہ حال ہے کہ جب قاری یاسامع نے ان کی مسجد میں کام نہیں کیا وہ خواہ کتنا ہی محتاج ہو ان کو اسکی زبوں حالی پر قطعا کوئی رحم نہیں آتا، اس سے ثابت ہوا کہ جا نبین کی نیت معاوضہ کی ہے اور للہیت کے دعوے میں جھوٹے ہیں، لہذا اس طرح سننے اور سنانے والے سب سخت گنہگار اور فاسق ہیں، اور ایسے قاری کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔

فرائض میں فاسق کی امامت کا یہ حکم ہے کہ اگر صالح امام میسر نہ ہو یا فاسق امام کو ہٹانے کی قدرت نہ ہو تو اسکی اقتداء میں نماز پڑھ لی جائے ترک جماعت  جائز نہیں مگر تراویح کا حکم یہ ہے کہ کسی حال میں بھی فاسق کی اقتداء میں جائز نہیں، اگر صالح حافظ نہ ملے تو چھوٹی سورتوں سے تراویح پڑھ لی جائیں اگر محلہ کی مسجد میں ایساحافظ تراویح پڑھائے تو فرض مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کر کے تراویح الگ مکان میں پڑھیں. بالفرض کسی قاری کا مقصود معاوضہ نہو تو بھی لین دین کے عرف کی وجہ سے اسکی توقع ہوگئی اور کچھ نہ ملنے پر افسوس ہوگا، یہ اشراف نفس ہے جو حرام ہے۔

اگرکسی قاری کو اشراف نفس سے بھی پاک تصور کر لیا جاۓ تو بھی اس لین دین میں عام مروج فعل حرام سے مشابہت اور اس کی تائید ہوتی ہے علاوہ ازیں دینی غیرت کے بھی خلاف ہے، اس لئے بہر کیف اس سے کلی اجتناب واجب ہے، فقط والله الموفق.

 

فتاویٰ دینیہ جلد ١ صفحہ ١٥١

تراویح میں قرآن شریف کے سنانے یا پڑھنے کی مزدوری کے طور پر بخشش کے نام سے چندہ کر کے یا اپنے طور پر جو پیسے دئے جاتے ہیں وہ جائز نہیں ہیں وہ اجرت ہی ہے۔

 

امداد الاحکام جلد ٣ صفحہ ٨٥

جو شخص مسجد کا امام معین نہیں اس کو محض تراویح سنانے پر کچھ روپیہ لینا ناجائز ہے۔

 

محمود الفتاوى: جلد 3 ، ص 91 – 94.   مكتبة محمودية، ڈابھیل

 

فتاوى رحمية: جلد6 ، ص3  24 . دار الاشاعت   2

 

  فتاویٰ فریدیہ جلد ١ صفحہ ٦٠٧    3

فتاوی قاسمیہ جلد ٨ صفحہ ٤٣٦

 

 

 

 

 

This answer was collected from Daruliftaazambia.com, which serves as a gateway to Darul Iftaa Mahmudiyyah – Lusaka, Zambia.

Read answers with similar topics: