Home » Hanafi Fiqh » DaruliftaaZambia.com » Holding the staff during khutba

Holding the staff during khutba

Answered as per Hanafi Fiqh by DaruliftaaZambia.com

Question

What is the ruling regarding holding the stick during friday khutbah?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

It is preferable to hold a staff/stick during the Friday khutba. If one does not hold a staff/stick, then this too is permissible.

And Allah Ta’āla Knows Best

Checked and Approved by,

Mufti Nabeel Valli.

Darul Iftaa Mahmudiyyah

Lusaka, Zambia

www.daruliftaazambia.com

__________________________

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 163)

 استشكله في الحلية بأنه في رواية أبي داود «أنه – صلى الله عليه وسلم – قام: أي في الخطبة متوكئا على عصا أو قوس» . اهـ. ونقل القهستاني عن المحيط أن أخذ العصا سنة كالقيام

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 515)

 إذا قام يكون “السيف بيساره متكئا عليه في كل بلدة فتحت عنوة” ليريهم أنها فتحت بالسيف.. “و” يخطب “بدونه” أي السيف “في” كل “بلدة فتحت صلحا” ومدينة الرسول فتحت بالقرآن فيخطب فيها بلا سيف ومكة فتحت بالسيف “

“فتحت عنوة” أي قهرا أو غلبة …وفيه إشارة إلى أنه يكره الإتكاء على غيره كعصا وقوس خلاصة لأنه خلاف السنة محيط وناقش فيه ابن أميرحاج بأنه ثبت أنه صلى الله عليه وسلم قام خطيبا بالمدينة متكئا على عصا أو قوس كما في أبي داود وكذا رواه البراء بن عازب عنه صلى الله عليه وسلم وصححه ابن السكن

 

احسن الفتاوی 152/4

بوقت خطبہ ہاتھ میں عصا لینا

اس سے متعلق عبارات فقہ مختلف ہے۔صورت تطبیق یہ ہے کہ فی نفسہ سنت غیر مؤکدہ ہے مگر اسکا التزام و استمرار مکروہ و بدعت ہے

فتاوی محمودیہ 269/8

خطبہ جمعہ کے وقت عصا کے ہاتھ میں لینا بدعت سیئہ نہیں بلکے مستحب ہے

فتاوی رحیمیہ 132/6

خطبہ کے وقت ہاتھ میں عصا لینا اور سہارا دینا جائز ہے مکروہ نہیں۔مگر اسکو ضروری سمجھنا اور عصا نہ لینے والے کو ملامت کرنا مکروہ ہے۔کسی مستحب کو اسکے درجے سے بڑہا دینا بھی مکروہ ہے

فتاوی عثمانی 514/1

بوقت خطبہ ہاتھ میں عصا لینا

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اکثر عصا یا کمان ہاتھ میں لے کر خطبہ دیتے تھے،اس لۓ اگر کوئ شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا ء میں ایسا کرے تو سنت ہے۔لیکن یہ خطبہ کی کوئ لازمی شرط نہیں ہے،عصا لۓ بغیر بھی خطبہ بلا کراہت درست ہے،اور اسکو خطبہ کی لازمی شرط قرار دینا التزام ما لا یلزم کی بنا پر بدعت ہے۔بعض لوگ چونکہ اسکو خطبہ کا لازمی جزء سمجھنے لگے تھے اس لۓ بعض علماء نے اسکو ترک کرنے کا اہتمام کیا

کفایت المفتی 260/3

عصا ہاتھ میں لے کر خطبہ پڑھنا ثابت تو ہے لیکن بغیر عصا کے خطبہ پڑھنا اس سے زیادہ ثابت ہے پس حکم یہ ہے کہ عصا ہاتھ میں لینا بھی جائز ہے اور نہ لینا بہتر ہے اور حنفیہ نے اسکو اختیار کیا ہے۔پس اسکو ضروری سمجھنا اور نہ لینے والے کو طعن تشنیع کرنا درست نہیں اسی طرح لینے والے کو بھی ملامت کرنا درست نہیں

فتاوی دار العلوم دیوبند  46/5

خطیب کا بوقت خطبہ عصا لینا

در المختار میں ہے خلاصہ سے و یکرہ ان یتکئ علی قوس او عصا الخ اور شامی میں ہے حدیث سے کہ تکیہ لگانا عصا یا قوس پر ثابت ہے اور قہستانی نے محیط سے نقل کیا ہے کہ لینا عصا کا سنت ہے،پس شاید تطبیق کی یہ صورت  ہو کہ ضرورت ہو تو لاٹھی ہاتھ میں رکھلے کچھ حرج نہیں ہے اور اگر ضرورت نہ ہو تو نہ لے

 

امداد الاحکام 778/1

اخذ عصا فی الخطبہ کی مسنونیت میں حنفیہ نے اختلاف کیا ہے۔خلاصہ میں مکروہ کہا ہے اور قہستانی نے محیط سے اخذ عصا کی مسنونیت نقل کی ہے ۔دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ  اخذ عصا سنت مقصودہ نہیں ہے بلکہ سنت مقصودہ اخذ سیف ہے اس مقام پر جو سیف سے مفتوح ہوا ہو اور اگر سیف نہ لے تو عصا کا لینا بالقصد مسنون نہیں،بلکہ محضاعتماد اور سہولت قیام کے لۓ اخذ عصا جائز ہے۔۔۔پس اخذ عصا فی نفسہ جائز ہے۔مگر اسکا التزام نہ کیا جاۓ احیانا ترک بھی کر دیا جاۓ

 

امداد الفتاوی 513/1

خطیب کا بوقت خطبہ عصا لینا

عادت نہ کرے۔ضرورت میں مضائقہ نہیں وھو وجہ الجمع بین الحدیث ابی داود فقام صلی الله عليه وسلم متکئا علی عصا او قوس و بین قول الفقھاء یکرہ ان یتکئ علی قوس او عصا

 

فتاوی دار العلوم زکریا 706/2

عصا لینا مستحب ہے لیکن اگر اسکو ضروری سمجھا  جھاوے اور تارک پر ملامت کی جاۓ تو التزام مالا یلزم کی وجہ سے منع کیا جاۓ گا۔۔۔خلاصہ یہ ہے کہ امام صاحب کو چاہۓ کہ اکثر و بیشتر عصا نہ پکرے۔ہاں عوام کے عقیدہ کے اصلاح کے بعد  مستحب پر عمل کرتے ہوۓگاہے گاہے عصا ہاتھ میں لیا کریں

 

کتاب الفتاوی 51/3

خطیب کا بوقت خطبہ عصا لینا

ایک صحابی نقل کرتے ہے کہ ہم نبی کے ساتھ جمعہ میں حاضر ہوۓ،تو اپ صلی اللہ علیہ و سلم عصا یا کمان کا سہارا لۓ ہوۓ کھڑے تھے۔اس لۓ خطبہ میں عصا لینا بہتر ہے ،علامہ شامی نے تانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ان اخذ العصاسنۃ کالقیام البتہ چونکہ یہ حکم  سنت غیر مؤقدہ یا مستحب کے درجے  کہ ہے اسلۓ،اس لۓ عصا لینے کو ضروری نہ سمجھنا چاہۓ اور ،اور نہ کبھی اسکو وجہ اختلاف بنانا چاہۓ،کہ امت کا اتحاد اور اسکی اجتماعیت کو برقرار رکھنا مستحبات اور افضل و غیر افضل سے زیادہ اہم ہے

This answer was collected from Daruliftaazambia.com, which serves as a gateway to Darul Iftaa Mahmudiyyah – Lusaka, Zambia.

Read answers with similar topics: