Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Wasiyyat to Daughter

Wasiyyat to Daughter

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

If a person verbally states “when i die my gold shall go to x daughter” or “when i die x daughter will have the house and cant be forced to move out my her siblings” is this islamically valid or invalid as the daughter is a heir?

 

Is it also valid / invalid as it is merely a verbal statement?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

In principle it is not permissible to bequeath (make Wasiyyat) for ones heirs.[1] Rasulullah (Sallalahu Alayhi Wassalam) said:

عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏ “إِنَّ اللَّهَ عَزَّ اسْمُهُ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ وَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‏”‏‏ (سنن النسائى حديث 3643)

Translation: Amr bin Kharijah (Radhiallahuanhu) said: The Messenger of Allah (Sallalahu Alayhi Wassalam) said: ‘Allah, Mighty is His Name, has given every person who has rights his due, and there is no bequest to an heir.'” (Sunan an-Nasa’i Hadith No.3643)

In the enquired scenario the verbal statement was a bequest for an inheritor. Therefore, it will impermissible and invalid.

And Allah Ta’āla Knows Best

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

 


[1] الأصل للشيباني ط قطر (5/ 444)

باب الوصية للوارث والأجنبي

بلغنا عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه قال: “لا وصية لوارث”

وإذا أوصى  الرجل بعبده لبعض ورثته ولأجنبي فإنه لا يجوز حصة الورثة من ذلك، وتجوز حصة الأجنبي من الثلث.

 

شرح مختصر الطحاوي للجصاص (4/ 153)

كتاب الوصايا

مسألة: [الوصية للوارث]

قال أبو جعفر: (ولا وصية لوارث، إلا أن يجيزها الورثة بعد موت الوصي، وهم أصحاء بالغون).

قال أحمد: قد روي أن الوصية كانت واجبة للوالدين والأقربين قبل نزول آية المواريث، بقول الله تعالي:} كتب عليكم إذا حضر أحدكم الموت إن ترك خيرا الوصية للولدين والأقربين {، ثم نسخ وجوبها بآية المواريث، وهي قوله تعالي:} إن امرؤا هلك ليس له ولد وله أخت فلها نصف ما ترك وهو يرثها إن لم يكن لها ولد {إلى قوله:} وإن كانوا إخوة رجالا ونساء فللذكر مثل حظ الأنثيين {.فأوجب قسمة جميع ما ترك الميت بينهم بالميراث، فسقط به فرض الوصية والميراث في مال واحد….

فأما وجه بطلان الوصية للوارث: فما رواه ابن عباس، وعمرو بن خارجة، وأبو أمامة وغيرهم عن النبي صلي الله عليه وسلم أنه قال: “لا وصية لوارث، إلا أن يجيزها الورثة”. في لفظ حيث ابن عباس وعمرو بن خارجة.

 

تحفة الفقهاء (3/ 207)

ومنها أن يكون الموصى له أجنبيا حتى أن الوصية للوارث لا تجوز إلا بإجازة الورثة لقوله عليه السلام لا وصية لوارث إلا أن يجيز الورثة فإن أجاز بعض الورثة تنفذ بقدر حصته من الميراث لا غيرومنها أن لا يكون قائلا لقوله عليه السلام لا وصية لقاتل. ولو أجاز الورثة يجوز عند أبي حنيفة ومحمد لأنه لا يجوز لحق الورثة فيجوز بإجازتهم كما في وصية الوارث وعند أبي يوسف لا يجوز لأن المانع حق الله تعالى فصار كالميراث

 

الفتاوى الهندية (48/ 19)

ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة ، ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك ، كذا في فتاوى قاضي خان .

 

کتاب النوازل جلد 18 صفحه 35

وارث کے حق میں وصیت

سوال(۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: عشرت النساء نے اپنے انتقال سے پہلے اپنے ایک غیر شادی شدہ لڑکے اور ایک نواسی کے لئے کچھ سامان کی وصیت کی تھی (مثلاً کپڑا اور دیگر سامان) وہ سامان اُس کے بیمار ہونے کے بعد اپنی لڑکی کے گھر چلے جانے کی وجہ سے عشرت النساء کے گھر سے نہیں اُٹھایاگیا، اِس بیچ میں عشرت النساء کا انتقال ہوگیا، ہم کو ِاس بات کا فتویٰ چاہئے کہ جو سامان وصیت کیا گیا تھا، وہ اُن کو دے دیا جائے یا مرنے کے بعد جیسے تقسیم کیا جاتا ہے، ویسے کیا جائے؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشرت النساء کی وصیت اپنے لڑکے کے حق میں (وارث ہونے کی وجہ سے) دیگر وارثین کی اِجازت پر موقوف رہے گی، اگر وارثین اِجازت دے دیں تو اُسے مذکورہ لڑکے کو دے دیا جائے اور اگر اجازت نہ دیں تو اُس کے حق میں وصیت کردہ اَشیاء کو ترکہ کے ساتھ تقسیم کردیا جائے؛ البتہ نواسی کے لئے (وارث نہ ہونے کی وجہ سے) وصیت ثلث مال کے اندر اندر مطلقاً نافذ ہوجائے گی۔

ولا لوارثہ … مباشرۃ إلا بإجازۃ ورثتہ لقولہ علیہ السلام: لا وصیۃ لوارثٍ إلا أن یجیزہا الورثۃ، وہم کبار عقلاء۔ (الدر المختار / کتاب الوصایا ۶؍۶۵۵ دار الفکر بیروت، وکذا في البحر الرائق / کتاب الوصایا ۹؍۱۱۲ زکریا)

ولا تجوز (أي الوصیۃ) بما زاد علی الثلث إلا أن یجیزہ الورثاء بعد موتہ، وہم کبار … ولا تجوز الوصیۃ للوارث إلا أن یجیزہا الورثۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / کتاب الوصایا ۶؍۹۰ رشیدیۃ)

تجوز بالثلث للأجنبي عند عدم المانع، وإن لم یجز الوارث لا الزیادۃ علیہ۔ (الدر المختار مع الشامي / کتاب الوصایا ۶؍۶۵۰ کراچی، ۱۰؍۳۳۹ زکریا)

ولا تجوز لوارثہ إلا أن یجیزہا الورثۃ۔ (الہدایۃ / کتاب الوصایا ۴؍۶۴۱ إدارۃ المعارف دیوبند، ۴؍۶۷۵ الأمین کتابستان دیوبند) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

 

فتاوی قاسمیہ جلد 25 صفحه 81

وارث کے حق میں وصیت نافذ نہیں ہوتی

سوال ]۱۱۲۴۷[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : کہ ہمارے والد صاحب نے ایک مکان اپنے ذاتی سرمایہ سے خریدا تھا، ہمارے والد صاحب کے دو بھائی اور ایک بہن ہیں ، اس مکان کے لیے ہمارے والد بزرگوار نے وصیت کردی تھی اور زبانی ہبہ بھی کردیا تھا، دو یا تین عزیزوں کے سامنے اپنی وفات سے پہلے کہ بعد میرے مرنے کے میری دونوں لڑکیاں آدھے آدھے مساوی طور پر مالک مکان ہوں گی، اس کے باوجود ہمارے چچا صاحب جن کا نومبر ۱۹۹۰ء کو انتقال ہو گیا ہے، ہم پردعویٰ تقسیم کا ۱۹۸۵ء میں عدالت میں کردیا کہ ہم بھی مالک ہیں ، جبکہ ہمارے مرحوم والد صاحب نے وصیت نامہ لکھ دیا اور ہبہ بھی کردیا تو کیا اب بھی شرعاً ہمارے چھوٹے چچا اور ان کی بیوہ اور ان کی لڑکی کو اس مکان میں حصہ پہنچ سکتا ہے کہ نہیں ؟

المستفتی: دختران قمر جہاں و چندا بی محلہ فیل خانہ مرادآباد

باسمہ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلامی شریعت میں وارث کے حق میں وصیت

نافذ نہیں ہوتی ہے، اور مالک جائیداد کی دونوں لڑکیاں شرعی وارث ہیں اور مالک جائیداد کے بھائی بہن بھی شرعی وارث ہیں بشرطیکہ مالک جائیداد کا کوئی لڑکا موجود نہ ہو۔

عن أبی أمامۃ الباہلی -رضی اللہ عنہ-قال: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول فی خطبتہ عام حجۃ الوداع، إن اللہ تبارک وتعالیٰ قد أعطیٰ کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث۔ (سنن الترمذی، باب ما جاء لا وصیۃ لوارث، النسخۃ الہندیۃ ۲/۳۲ دار السلام رقم: ۲۱۲۰، سنن أبی داؤد، کتاب الوصایا، باب ما جاء فی الوصیۃ للوارث، النسخۃ الہندیۃ ۲/۳۹۶، دار السلام رقم: ۲۸۷۰)

لاتجوز الوصیۃ للوارث۔ (الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الوصایا، ملتانی ۲/۳۸۹، دار الکتاب دیوبند ۲/۳۶۹، مجمع الأنہر، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/۴۱۸، ہدایہ، رشیدیہ ۴/۶۴۱، اشرفی دیوبند ۴/۶۵۷، شامی کراچی ۶/۶۵۵، زکریا ۱۰/۳۴۶)

لہٰذا کل ترکہ تین حصوں میں تقسیم ہو کر دونوں لڑکیوں کو برابر برابر دو حصے اور بھائی بہن کو ایک حصہ دیا جاسکتا ہے، اور بھتیجی اور بھائی کی بیوہ وغیرہ کو نہیں ملتا ہے، جبکہ بھتیجی کا باپ اور بیوی کا شوہر مالک جائیداد سے پہلے مرگیا ہو اور اگر زندہ تھا اور بعد میں انتقال کیا ہے تو اس کے حصہ میں اس کی بیوہ اور لڑکی وارث ہو سکتی ہیں ۔ فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

 

فتاویٰ حقانیہ جلد 6 صفحه 679

کتاب الوصیۃ (و صیت کے احکا م و سا ئل)

وارث کے لیے وصیت کر نا با طل ہے

سوال:۔ایک شخص نے اپنے کل ما ل کی وصیت پو تے کے لیے کر دی جبکہ اس کی پو تیاں اوربہنیں بھی موجو د ہیں، تو کیا یہ وصیت شر عاً در ست اور نا فذ ہو گی یا نہیں؟تفصیلاً جواب مطلو ب ہے

الجواب

ورثا ء کے حقو ق قا نو ن وراثت کے مطا بق متعین ہیں، اور مو رث ور ثا ء کو وصیت کر کے اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کا حق نہیں رکھتا، جس وارث کے لیے وصیت کی جا ئے اس کی تنفیذ دو سرے ور ثا ء کی اجا زت پر موقوف ہو گی اور اگر دیگر ور ثاء اجا زت نہ دیں تو وصیت کا لعد م رہے گی تا ہم بصورت اجا زت وصیت پر حمل کر کے اس میں کو ئی حر ج نہیں۔

قال العلامۃ المرغینانیؒ: ولاتجوز لوارثہ لقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام: ان اللّٰہ تعالیٰ اعطی کل ذی حقّ حقّہٗ اَلَا لَا وصیۃ لوارث ولانہ یتأذی البعض بایثار البعض ففی تجویزہ قطعیۃ الرّحم ولانہ حیف بالحدیث الّذی رویناہ۔ (الھدایۃ:ج؍۴،ص؍۶۲۵، کتاب الوصایا)

عن عمرو بن خارجۃ خطب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال انّ اللّٰہ قد اعطی کل ذی حقّ حقہ اَلآ لا وصیّۃ لوارث۔ (سنن النسائی:ج؍۲،ص؍۱۳۱، کتاب الوصایا ، باب ابطال الوصیۃ للوارث)

 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: