Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Claiming from insurance company

Claiming from insurance company

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

Assalaam Wa Alaikum

I live in a sectional title complex where I own a unit. In terms of South African law all complexes need to be insured. Insurance is billed as part of the general levy. My airconditioner was damaged by a surge. Can I claim from the insurance company.

Jazakallah

Answer

In the Name of Allaah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salaamu ‘alaykum wa-rahmatullaahi wa-barakaatuh.

In principle, conventional insurance is not permissible[1]. If one is required by law to take out conventional insurance, he will be excused[2]. In the case of a damage or loss claimable from the insurance company, one may claim only to the extent of the premiums paid and not more[3].

And Allaah Ta’aala Knows Best.

Muajul I. Chowdhury

Student, Darul Iftaa

Astoria, New York, USA

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

_______


[1]  [البقرة: 278، 279]

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279)}

 

[البقرة: 219]

{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا}

 

الأصل للشيباني (2/ 419)

وبلغنا عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه نهى عن شرى حَبَل الحَبَلَة، ونهى عن بيع الغرر

 

صحيح مسلم (3/ 1153)

(1513) وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن إدريس، ويحيى بن سعيد، وأبو أسامة، عن عبيد الله، ح وحدثني زهير بن حرب، واللفظ له، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، حدثني أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحصاة، وعن بيع الغرر»

 

You may refer to #39379

 

[2]  الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ

 

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

مَا أُبِيحَ لِلضَّرُورَةِ يُقَدَّرُ بِقَدْرِهَا

 

فتاوى محموديه  (16/ 387)

بیمہ میں سود بہی ہے اور جوا بہی یہ دونوں جیزیں ممنوع ہیں، بیمہ بہی ممنوع ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کراۓ جان و  مال کی حفاظت ہی نہ ہو سکتی ہو، یا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانا درست ہے

 

اسلام اور جدید معیشت و تجارت  (ص: 197 )

اس وقت عالم اسلام کے تقریبا تمام مشاہر علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں

 

فتاوى دار العلوم زكريا  (5/ 439)

فی زماننا انشورنس کا معاملہ جن بنیادوں پر استوار ہے ان کے تحت شرعی نقطہ نظر اور اصول وقواعد کی روشنی میں کسی بھی قسم کی املاک اور جائداد کو انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اور عدم جواز کا حکم دو ایسے محرمات کے پائے جانے کی وجہ سے ہے جن کی تحریم نصوص قطعیہ کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت اور ظاہر وباہر ہے، چنانچہ وہ دو مفاسد ربا وقمار کا پایہ جانا ہے، جس کی بنا پر یہ معاملہ ناجائز ہے 

 

فتاوى عثماني  (3 / 314) 

انشورنس سود اور قمار پر مشتمل ہو نے کی بناء پر بالکل حرام ہے، البتہ جو انشورنس حکومت کی طرف سے لازمی ہو، مثلا موٹر وغیرہ کا بیمہ، اس کو مجبورا کرا سکتے ہیں، مگر جب رقم ملی تو صرف اتنی رقم ملے تو صرف اتنی رقم خود استعمال کر سکتے ہیں جتنی خود داخل کی تہی، اس سے زائد نہیں

 

جامع الفتاوى  (6/ 309)

بیمہ کی جو موجودہ صورتیں رائج ہیں وہ شرعی نقطہ نظرسےصحیح نہیں بلکہ قمار اور جوا کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ اس لئے اپنے اختیار سے بیمہ کرانا جائز نہیں اور اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے بیمہ کرانا پڑے تو اپنی ادا کردہ رقم سے زیادہ وصول کرنا درست نہیں چونکہ بیمہ کا کاروبار درست نہیں اس لئے بیمہ کمپنی میں ملازمت بھی صحیح نہیں۔ 

 

جامع الفتاوى  (6/ 312)

بیمہ سود وقمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو اسی پر اکتفائ کیا جائے۔

 

[3]  فتاوى عثماني  (3/ 544)

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: