Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Am I a munafiq as per the Hadith?

Am I a munafiq as per the Hadith?

I appreciate the swift response, but I am still lost.

I merely would like to clarify given my circumstances am I sinful for not praying my salah with Jamat at the mosque? Am I a munafiq as per the Hadith?

For the past year, I have had no car available on weekdays and walking to the mosque would be take 20-25 minutes in the early dark hours. Is this not an exception on its own?

Jazak’Allah.

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

Your concern with regards to your Salah is a sign of a Believer and not a Munafiq (hypocrite). If you are genuinely not able to go to the Masjid, you may perform Salah with few individuals from within the area in a room/house. You will receive the reward for performing Salah with Jamaat, though the rewards of performing Salah in a Masjid are far greater. [1] [2]

And Allah Ta’āla Knows Best

Safwaan Ibn Ml Ahmed Ibn Ibrahim

Student Darul Iftaa
Limbe, Malawi 

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

___________________________

 

 بدائع الصنائع – المكتبة الشاملة    (1/ 384) [1]

 فصل : في بيان من تجب عليه الجماعة

 و أما بيان من تجب عليه الجماعة فالجماعة إنما تجب على الرجال العاقلين الأحرار القادرين عليها من غير حرج فلا تجب على النساء و الصبيان و المجانين و العبيد و المقعد و مقطوع اليد و الرجل من خلاف و الشيخ الكبير الذي لا يقدر على المشي و المريض

 

أحسن الفتاوی (3/285-286) – سعید

۔۔۔

الجواب: چونکہ پندرہ منٹ  میں تیز چلنے والا شخص ایک میل طے کرتا ہے اور پانی ایک میل دور ہو تو وضوء کیلئے وہاں جانا ضروری  نہیں، تیمم کرنا درست ہے، اس سے ثابت ہوا کہ ایک میل کہ طے کرنے میں حرج ہے، اور حرج  مسقط جماعت ہے۔ 

 

 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – دار الفكر-بيروت (1/ 554)

في مسجد أو غيره….(فتسن أو تجب) ثمرته تظهر في الإثم بتركها مرة (على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج)

•———————————•

[رد المحتار]

(قوله في مسجد أو غيره) قال في القنية: واختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الأفضلية. اهـ…. (قوله من غير حرج) قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها ولكنه يفوته الأفضل بدليل «أنه – عليه الصلاة والسلام – قال لابن أم مكتوم الأعمى لما استأذنه في الصلاة في بيته: ما أجد لك رخصة» قال في الفتح: أي تحصل لك فضيلة الجماعة من غير حضورها لا الإيجاب على الأعمى، «لأنه – عليه الصلاة والسلام – رخص لعتبان بن مالك في تركها» اهـ لكن في نور الإيضاح: وإذا انقطع عن الجماعة لعذر من أعذارها وكانت نيته حضورها لولا العذر يحصل له ثوابها اهـ والظاهر أن المراد به العذر المانع كالمرض والشيخوخة والفلج، بخلاف نحو المطر والطين والبرد والعمى تأمل (قوله ولو فاتته ندب طلبها) فلا يجب عليه الطلب في المساجد بلا خلاف بين أصحابنا، بل إن أتى مسجدا للجماعة آخر فحسن، وإن صلى في مسجد حيه منفردا فحسن. وذكر القدوري: يجمع بأهله ويصلي بهم، يعني وينال ثواب الجماعة كذا في الفتح.

واعترض الشرنبلالي بأن هذا ينافي وجوب الجماعة. وأجاب ح بأن الوجوب عند عدم الحرج، وفي تتبعها في الأماكن القاصية حرج لا يخفى مع ما في مجاوزة مسجد حيه من مخالفة قوله – صلى الله عليه وسلم – «لا صلاة لجار المسجد إلا في المسجد» . اهـ. وفيه أن ظاهر إطلاقه الندب ولو إلى مكان قريب، وقوله مع ما في مجاوزة إلخ.

 

 

فتاوی دار الافتاء دار العلوم دیوبند انڈیا – مکتبہ جبریل 

صفحہ نمبر: 2170

عبارت 15185:

 

گھر سے کتنے فاصلہ پر مسجد ہو تو جماعت فرض ہوجاتی ہے؟ (۲)بکھرے موتی میں اللہ پاک کے نام کے جووظائف ہیں ان میں سے کچھ وظائف میں یا کا لفظ نہیں لکھا ہے جیسے الظہیر تو ان کے ساتھ یا کا اضافہ کیا جاسکتا ہے جیسے یا ظہیر یا باطن؟

 

Aug 18,2009 Answer: 15185

 

فتوی: 1501=1227/د

(۱) جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنا سنت موٴکدہ قریب بواجب ہے، بیش بہا ثواب کا باعث ہے، اوراس کا تارک مستحق وعید ہے۔ جتنی دور بغیر مشقت کے پہنچنا ممکن ہو وہاں جاکر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے، مسافت سے اس کی تحدید نہیں کی جاسکتی کیونکہ ہرشخص کی صحت اور قوت کی حالت مختلف ہوتی ہے، نیز پہنچنے کے ذرائع بھی مختلف ہوتے ہیں کوئی پیدل جاتا ہے کوئی سائیکل موٹر سائیکل یا کار سے اوراگر اس قدر مسجد دور ہے کہ ہروقت پہنچنے میں مشقت لاحق ہونے کا اندیشہ ہے تو قریب تر جگہ پنج وقتہ نماز کے لیے مسجد کا انتظام کرنا ضروری ہوجاتا ہے، مجبوری میں جب کہ قریب تر جگہ مسجد کا انتظام بھی نہ ہوسکے اور دور کی مسجد میں ہروقت پہنچنے میں شدید دشواری لاحق ہو تو مقامی طور پر جماعت سے نماز پڑھنے کا انتظام کریں، خواہ کسی کمرہ وغیرہ میں تاکہ گھر کے یا آس پاس کے لوگ آکر جماعت سے نماز ادا کرلیا کریں، مگر اس صورت میں جماعت کا ثواب تو ملے گا لیکن مسجد کی جماعت کے ثواب سے محرومی رہے گی، اس لیے مسجد کے جماعت کے لیے سعی کرنا پھر بھی ضروری ہوگا، خواہ قریبی جگہ میں مسجد بناکر یا دور کسی مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرے۔

(۲) جی ہاں اسمائے حسنیٰ سے پہلے [یا] لگاسکتے ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

 

میں بنگلور میں رہتا ہوں جہاں میرا کمرہ ہے وہاں سے مسجد بہت دور ہے ، تقریبا ایک گھنٹہ لگتاہے ، اگر میں مسجد جاؤں تو کیا میں فون کے ذریعہ سے جماعت سے نمازپڑھ سکتاہوں؟ چونکہ موبائل فون سستاہے اور جب مسجد میں جماعت ٹھہرے گی تو میں بھی جماعت کے ساتھ پڑھ سکوں گا ، کیا اس طرح کرنا صحیح ہوگا؟

Jul 28,2010 Answer:

23998

فتوی(ب): 1393=288-8/1431

موبائل فون سستا ہو یا مہنگا، فون کے ذریعہ کمرہ میں بیٹھے بیٹھے جماعت سے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ آپ کی نماز اور اقتداء کچھ بھی صحیح نہ ہوگی اس کے بجائے آپ اپنے محلے پڑوس کے ایک دو مسلمان کو ساتھ لے کر اپنے یہاں جماعت کرلیا کریں تو نماز ہوجائے گی اگرچہ مسجد کے ثواب سے محرومی ہوگی۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

 

 

 [2] امداد الاحکام (1/443) – مکتبہ دار العلوم کراچی

امداد الاحکام (1/447-448) – مکتبہ دار العلوم کراچی

 

نور الايضاح ونجاة الارواح (ص: 114) – المكتبة الشاملة

باب الاعتكاف

تعريفه

هو الإقامة بنيته في مسجد تقام فيه الجماعة بالفعل للصلوات الخمس فلا يصح في مسجد لاتقام فيه الجماعة للصلوات على المختار وللمرأة الاعتكاف في مسجد بيتها وهو محل عينته للصلاة فيه

اقسام الاعتكاف

والاعتكاف على ثلاثة أقسام واجب في المنذور وسنة كفاية مؤكدة في العشر الأخير من رمضان ومستحب فيما سواه والصوم شرط لصحة المنذور فقط وأقله نفلا مدة يسيرة ولو كان ماشيا على المفتى به 

If he makes intention of I’tikaf in the Masjid whilst there for Salah, that will be additional reward for him. 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: