Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » طلاق بذریعے غیر مسلم عدالت

طلاق بذریعے غیر مسلم عدالت

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

السلام علیکم بندہ امریکہ میں مستقل رہائش رکھتا ہے۔ بندہ کے اپنے گھر والی سے اختلافات ہیں جن کی وجہ سے علیحدگی تک نوبت آچکی ہے۔ چونکہ ہم امریکہ میں رہتے ہیں اس لئے شادی طلاق وغیرہ میں یہاں کی عدالتیں مقامی قوانین کے مطابق فیصلے دیتی ہیں۔ عدالتی طلاق کے فیصلے کے بغیر دوسری شادی نہیں کی جا سکتی، اس لیے براہ کرم بندہ کے اس سلسلے کے چند سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں جو بندہ اور یہاں کے دیگر رہائشی حضرات کے لئے دینی راہنمائی کا سبب بنیں ۱- امریکہ میں بیویاں شوہر سے اختلافات کی وجہ سے پولیس اور عدالت سے شوہر سے الگ رہنے کافیصلہ لے لیتی ہیں اور عدالت شوہر کو بیوی سے الگ رہنے پر مجبور کرتی ہے اور اس کے ساتھ شوہر کی آمدنی کے مطابق بیوی کو خرچہ دینے کا حکم دیتی ہے۔ بیوی کے لئے اس طرح سے الگ ہونا اور شوہر سے خرچہ لینا کیسا ہے؟ ۲ -بیوی اگر بچے اپنے ساتھ رکھے تو شوہر کے ذمے اٹھارہ سال کی عمر تک بچوں کا خرچہ دینا بھی ہوتا ہے۔جس کی ماہانہ مقدار کا فیصلہ عدالت شوہر کی آمدنی کے مطابق کرتی ہے۔ عورت کے لئے اس طرح عدالتی فیصلہ کے ذریعے بچوں کا خرچہ لینااور بچے اپنے پاس رکھنا کہ شوہر بچوں سے ہفتہ وار عدالت کے مقرر کردہ اوقات میں مل سکے شرعا کیسا ہے۔ ۳ – بندہ کے معاملہ میں بیوی بچوں کو چھوڑ کر چلی گئی ہے تا کہ ملازمت کر کے پیسے کما سکے ، بندہ کی ماں جو کہ بیمار بھی ہے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ بندہ اگر عدالت میں کیس کرے تو عدالت بیوی کو حکم دے گی کہ وہ اپنی آمدن کے مطابق بچوں کا خرچہ شوہر کو ادا کرے۔ بیوی کا اس طرح بچوں کو شوہر کے پاس چھوڑ جانا شرعا کیسا ہے؟ اور بندہ جیسے حالات والے شخص کا ایسی بیوی سے عدالت کے ذریعے خرچہ لینا کیسا ہے؟ ۴- میاں اور بیوی اگر ایک سال تک الگ رہیں تو ان میں سے کوئی ایک عدالت سے طلاق کا فیصلہ لے سکتا ہے۔ ایسی مقامی قوانین کے مطابق عدالتی طلاق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر بیوی نے کیس کر کے طلاق لی ہو تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ یا شوہر نے کیس کر کے طلاق کا فیصلہ لیا ہو تو اس سے طلاق واقع ہو جائے گی؟ جزاکم اللہ تعالی۔ بندہ ثاقب علی خان امریکہ

Answer

اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے اسکو حتی الامکان دائم اور مستحکم بنانا ہے لہذا بغیر معتبر عذر کے مرد کا طلاق  دےدینا یا عورت کا خلع  کا مطالبہ کرنا انتہائئ مذموم عمل ہے؛ اور اگر کوئئ اختلاف پیدا ہو جائے تو اپنے دونوں خاندانوں کے دو معتبر شخصوں کو بلا کر انکے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے۔طلاق چونکہ ابغض المباحات ہے  ،اس لئے  اسے اختیار کرنے سے پہلے مصالحت کی  جتنی صورت ہوسکے اسے اختیار کرنا چاہئے حتی الامکان طلاق سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ضرورت کے مطابق ہي قانونی عدالت سے رجوع کرے اور اس سے غلط فائدہ نہ اٹھاے۔ 

اب آپ کے سؤالات کا نمبروار جواب دیا جارہا ہے:خلع کا مطال

1-غیر مسلم عدالت  کے فیصلے سے اگر بیوی نے علاہیدگی اختیار کرلی اور اسمیں کوئ معتبر شرعي وجہ بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں عورت ناشزہ ہے ۔اور شوہر پر اسکا خرچہ دینا لازم نہیں ہیں ۔

2- شریعت کی رو سے بچے کا نفقہ اگر لڑکا ہے تو  وہ بالغ ہونے تک  اور اگر لڑکی ہو تو نکاح ہونے تک  باپ پر ہے البتہ انکا خود مال ہو تو اس مال سے ہےباپ پر ہے البتیہ و نکاح ہونے ت  نہ کہ ماں  پر۔اور میاں بیوی کے  شرعی جدائگی(طلاق یا فسخ) کے بعد اگر بچہ لڑکا ہوں تو سات(7) تک  اور اگر لڑکی ہوں تو بلوغ  تک پرورش کرنے کا حق ماں کو ہے اور اسی دوران باپ جب چاہے اپنے بچوں سے مل سکتے ہیں انکا نفقہ بھی اس پر واجب ہے-اگر ماں پرورش سے  انکار کرے تو اسکو مجبور نہیں کیا جائیگا اور  باپ   کے ذمےانکی پرورش ہے۔عدالتی فیصلے سے فائدہ اٹھاکر شوہر مذکورہ بالا  تفصیل سے زیادہ لازم کرنا گناہ ہے۔

3-جواب نمبر دو میں آگیا ہے البتہ بیوی کا گھر اور بچوں کو چھوڑکر کام کرنا  بلا شرعی وجہ کے درست نہیں اور بیوی سے عدالت کے ذریعے پیسا وصول کرنا   بھی جائز نہیں۔

4-غیر مسلم عدالت  سے  لیا گیا فسخ یا طلاق شرعا معتبر نہیں۔ البتہ اسمیں قانونی کاغذات اور کاروائ  کیا ہے اسکو دیکھ کر ہی صحیح  فیصلہ کیا جاسکتا ۔  ہاں  شوہر خود زبانی طلاق دینے کا اختیار رکھتا  ہے ۔البتہ قانونی  مجبوری ہوں تو خود طلاق دینے کے بعد عدالت کے ذریعے بھی   طلاق کا فیصلہ حاصل کرے۔اور عدت پورے ہونے تک بيوي کا خرچہ اس پر لازم ہے۔

والله أعلم.

And Allah Ta’āla Knows Best

Rajeeb Qasimi

Darul Iftaa

Kerala, India

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

1)ولا نفقة للناشزة لفوات التسليم بمعنى من جهتها وهو النشوز والنشوز في النكاح أن تمنع نفسها من الزوج بغير حق خارجة من منزله بأن خرجت بغير إذنه وغابت أو سافرت     (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 4/ 22 )

 كنز الدقائق  ص:311))2) والأمّ والجدّة أحقّ به حتّى يستغني، وقدّر بسبع سنين وبها حتّى تحيض   

وَإِذا وَقعت الْفرْقَة بَين الزَّوْجَيْنِ فالأم أَحَق بِالْوَلَدِ وَالنَّفقَة على الْأَب ولاتجبر الْأُم عَلَيْهِ      (بداية المبتدي ص:88 ))3)

4)أما فسخ نكاح المرأة من قبل قاض غير مسلم فإنه غير معتبر شرعا (قضايا فقهية معاصرة ص 2251)

5)وعلى هذا فلا يجوز لمسلمة أن ترجع إلى محكمة الكفار لفسخ نكاحها من زوجها  ولو فعلت لا ينفسخ النكاح شرعا نعم اذا انفسخ النكاح بطريق شرعي كما سيأتي ان شاء الله ولا سبيل لاعتراف الفسغ قانونا إلا باللجوء الى محكمة غير مسلمة فإنه يجوز لها ذالك … (قضايا فقهية معاصرة ص 2253)

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.