Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Working in a HR department of a Bank

Working in a HR department of a Bank

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

I have been offered the role of Benefits, Renumeration and Analytics Manager in the HR department of a bank in Qatar. The role would mainly involve assigning respective salaries to employees based on their performance and merit. I did some research and found that the bank deals in interest based transactions.

Please let me know if it permissible to work in this role for a bank and would my income would be Halaal?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

We commend you on your sensitivity towards halal income. Ameen.

Your position of the HR Department with a job description of Benefits, Remuneration and Analytics Manager is of an administrative nature. You will not be involved in haram transactions. Your income will be halal.

And Allah Ta’āla Knows Best

Huzaifah Deedat

Student Darul Iftaa
Lusaka, Zambia 

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

_______________

بینک کی ملازمت کا تفصیلی حکم

    در  اصل بینک کی ملازمت نا جائز ہونےکی دو وجہیں ہو سکتی ہیں،ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہے کہ ملازمت میں سود وغیرہ کے نا جائز معاملات میں اعانت ہے،دوسرے یہ کہ تنخاہ حرام مال سے ملنے کا احتمال ہےان میں سے پہلی وجہیں یعنی حرام کاموں میں مدد  کا جہاں  تک تعلق ہے،شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں،ہر درجہ حرام نہیں،بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہےجو براہ راست  حرام کام میں ہوں،مثلا سودی معاملہ کرنا،سود کا معاملہ لکھنا،سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ-لیکن اگر براہ راست سودی معاملہ میں انسان کو ملوث نہ ہونا  پڑے، بلکہ اس کام کی نوعیت ایسی ہو جیسے  ڈرائیور،چپراسی،یا جائز ریسرچ وغیرہ تو اس میں چونکہ براہ راست مدد نہیں ہے،اس لئے اس کی گنجا ئش ہے-

جہاں تک حرام  مال سے تنخاہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے مین شریعت کا اصول ہے کہ اگرایک مال جلال وھرام سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہو تو اس سے تنخواہ یا ہدیہ لینا ناجائز  نہیں، لیکن اگر حرام مال کم ہو تو جائز ہے-بینک کا  صورت حال  یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے،1-اصل سرمایہ2-ڈپازیٹرز کے پیسے3-سود اور حرام کاموں کی آمدنی،4-جائز خدمات کی آمدنی،اس سارے مجموعے میں صرف نمبر3 حرام ہے،باقی کو حرام نہیں کہا جا سکتا، اور چونکہ ہر بینک میں نمبر 1 اور نمبر دو کی کثرت ہوتی ہے،اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجموعہ غالب ہے،لہذاکسی جائز کام کی تنخاہاس سے وصول کی جاسکتی ہے-

یہ بنیاد ہےجس کی بناٰء پرعلماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے، البتہ احتیاط اس سے بھی اجتناب کیا جائے-

فتاوی عثمانی(3/396) مکتبہ دار العلوم کراچی

 

ہاں بینک میں وہ شعبے جو سود سے متعلق نہیں ہے مثلا بینک میں چپراسي باورچي درائيونگ جاروب کشي وغیرہ کي ملازمت جائز اور درسست ہے اور تنخوااہ بھي حلال ہے

فتاوی دار العلوم زکریا (673/5) زمزم پبلشرز

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: