Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » When Walima should be done, Can both parties split the cost of the Walima?

When Walima should be done, Can both parties split the cost of the Walima?

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

Assalaamu alaykum,

I would like to know when walima ceremony should be done? Is it alowed to held walima ceremony after few months of NIkah? We would like to get nikah done as soon as possible to avoid any fitnah. But groom’s family wants to do walima and are not ready to do walima right now. Another question is, is it allowed to split the cost of walima between bride and groom family. We are planning to have nikah done in masjid and walima next day. But we also would like to invite our guests and groom’s guests for walima.

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

In principle, the purpose of the Walima is to express happiness upon the marriage of the spouses. Walima is a Sunnah of Rasulullah Sallallaahu Alayhi Wasallam. If the Walima is done according to the Sunnah, one would gain the barakah and blessings of the Sunnah.[i]  

One should try their best to keep the Walima as simple as possible.

See the following hadeeth,

قال إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة 

Translation: Rasulullah Sallallaahu Alayhi Wasallam has said: The Nikah with the most barakah is the one with the least expenses (Musnad Ahmad)[ii]

The Walima should be held within the first three days of the nikah preferably after the consummation.[iii] [iv] [v]

If one wishes to have a Walima after the nikah and before the consummation that too will be valid.[vi] [vii]

It is Sunnah for the groom or his family to carry out the Walima.[viii]

Walima is not the responsibility of the bride and her family. It is incorrect to split/share the cost of the Walima and put any burden of the Walima on the bride and her family.[ix]

However, if the bride’s family wish to voluntarily assist in the cost of the Walima especially if they wish to invite added guests from their side, then there is nothing wrong in that. [x]

And Allah Ta’āla Knows Best

Mirza Mahmood Baig

Student Darul Iftaa

Jeddah, KSA

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

_______


[i]  صحيح البخاري (7/ 6) 

5085 – حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «أَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ خَيْبَرَ وَالمَدِينَةِ ثَلاَثًا يُبْنَى عَلَيْهِ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، فَدَعَوْتُ المُسْلِمِينَ إِلَى وَلِيمَتِهِ فَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ خُبْزٍ وَلاَ لَحْمٍ أُمِرَ بِالأَنْطَاعِ، فَأَلْقَى فِيهَا مِنَ التَّمْرِ وَالأَقِطِ وَالسَّمْنِ، فَكَانَتْ وَلِيمَتَهُ» فَقَالَ المُسْلِمُونَ: إِحْدَى أُمَّهَاتِ المُؤْمِنِينَ، أَوْ مِمَّا مَلَكَتْ يَمِينُهُ، فَقَالُوا: إِنْ حَجَبَهَا فَهِيَ مِنْ أُمَّهَاتِ المُؤْمِنِينَ، وَإِنْ لَمْ يَحْجُبْهَا فَهِيَ مِمَّا مَلَكَتْ يَمِينُهُ «فَلَمَّا ارْتَحَلَ وَطَّى لَهَا خَلْفَهُ وَمَدَّ الحِجَابَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ»


مسند أحمد (41/ 75) 

24529 – حدثنا عفان قال حدثنا حماد بن سلمة قال أخبرني ابن الطفيل بن سخبرة عن القاسم بن محمد عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة

 

خطبات محمود جلد 6 : ص۱۵۷
– مؤلف : حضرت مفتی محمود بن مولانا سلیمان حافظ جی بارڈولی صاحب

ولیمہ کا مقصد
علامہ بدر الدین عینیؒ نے شرح بخاری عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ ولیمے کا مقصد ہے ، لوگوں کو نکاح کی خبر ہو جائے ، حلال ، حرام میں فرق ہو جائے ۔  

[ii] مسند أحمد (41/ 75) 

24529 – حدثنا عفان قال حدثنا حماد بن سلمة قال أخبرني ابن الطفيل بن سخبرة عن القاسم بن محمد عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة 

[iii] Ibid

[iv]  فتاوی زکریا: ۳/۶۳۴،۶۳۵ : ولیمہ کی تاخیر کا حکم 

مسنون ولیمہ میاں بیوی کے ملنے کے بعد ہے۔ کیونکہ اس کا اصل مقصد ایک حلال وجائز تعلق کا اعلان واظہار ہے۔جس رات بیوی کے ساتھ خلوت ہو اس دن یا اگلے دن ولیمہ کرلینا چاہئے، نیز تیسرے دن تک مّؤخر کرنے کی بھی گنجائش ہے۔ لیکن تیسرے دن سے زیادہ تاخیر درست نہیں ہے۔

فتاوی محمودیہ: ۱۲/۱۴۱
دعوت ولیمہ شادی اور رخصتی سے تین روز تک ہوتی ہے اس کے بعد نہیں۔

 

فتاوی ہندیہ: ۱/۳۴۳، کتاب الکراهية، الباب الثانی عشر

ولا بأس بأن یدعو یوبئذ من الغد وبعد الغد ثم ینقطع العرس والولیمة، کذا فی الظہیرية

[v]  فتاوی قاسمیہ جلد 12، ص۵۶۹، ۵۷۳،۵۷۴، ۵۸۳
– مؤلف : حضرت مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی صاحب
– ناشر : مکتبہ اشرفیہ دیوبند الھند

ولیمہ کے معنی اور ولیمہ کا وقت کب ہے؟
’’الولیمۃ‘‘ کے معنی شادی کی خوشی کا کھانا اور ولیمہ عقد نکاح کے بعد رخصتی سے قبل اور رخصتی کے بعد بیوی کے ساتھ شب باشی سے قبل اور شب باشی کے بعد تینوں وقتوں میں سے کسی بھی وقت میں جائز ہے؛البتہ شب باشی کے بعد زیادہ بہتر ہے۔ اور عقد نکاح سے قبل ولیمہ کا ثبوت نہیں ہے۔
ویجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصۃ، أو بعد أن یبنی بہا، والثالث ہو الأولی۔ (بذل المجہود، کتاب الأطعمۃ، باب في استحباب الولیمۃ للنکاح، مطبع سہارن بور قدیم ۴/ ۳۴۵، دارالبشائر الإسلامیۃ ۱۱/ ۴۷۱، رقم: ۳۷۴۳) 

فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

بارات روانگی سے قبل دعوت سے ولیمہ کی ادائیگی ہوگی یانہیں؟

ولیمہ عقد نکاح ہوجانے کے بعد جائز ہوتا ہے، اس کی تین شکلیں ہیں: (۱) عقد نکاح کے بعد رخصتی سے قبل (۲) عقد اور رخصتی کے بعد شب زفاف سے قبل (۳) شب زفاف کے بعد۔ ان تینوں میں سے تیسری شکل زیادہ افضل ہے؛ لہٰذا عقد نکاح سے پہلے جو کھانا لڑکے والے کھلاتے ہیں، اس سے ولیمہ کا حق اور ولیمہ کی سنت ادا نہیں ہوگی۔
ویجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصۃ، أو بعد أن یبنی بہا، والثالث ہو الأولی۔ (بذل المجہود، کتاب الأطعمۃ، باب في استحباب الولیمۃ للنکاح، مطبع سہارن بور قدیم ۴/ ۳۴۵، دارالبشائر الإسلامیۃ ۱۱/ ۴۷۱، تحت رقم الحدیث : ۳۷۴۳) فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

ولیمہ کا کھانا کتنے لوگوں کو کھلائیں؟

ولیمہ مسنون ہے، اس میں کتنے لوگوں کو کھانا کھلایا جائے اس کی کوئی مقدار شریعت نے مقرر نہیں کی؛ بلکہ ہر شخص اپنی مرضی سے اپنی وسعت اور گنجائش کے مطابق لوگوں کو کھانا کھلادے ، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہما سے فرمایا کہ ولیمہ کرو اگرچہ ایک ہی بکری سے کیوں نہ ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ولیمہ کا حکم حسب گنجائش ہے۔
عن أنس -رضي اﷲ عنہ- أن النبی ﷺ رأی علی عبدالرحمن بن عوف أثر صفرۃ، قال: ما ہذا؟ قال: إني تزوجت امرأۃ علی وزن نواۃ من ذہب قال: بارک اﷲ لک أولم ولو بشاۃ۔ (صحیح البخاري، کتاب النکاح، باب کیف یدعي للمتزوج، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۷۷۴، رقم: ۴۹۶۱، ۵۱۵۵)
قال عیاض: وأجمعوا علی أن لا حد لأکثرہا، وأما أقلہا فکذلک، ومہما تیسر أجزأ، والمستحب أنہا علی قدر حال الزوج، وقد تیسر علی الموسر الشاۃ فما فوقہا۔ (بذل المجہود، کتاب النکاح، باب قلۃ المہر، دارالبشائر الإسلامیۃ ۸/ ۲۱، تحت رقم الحدیث: ۲۱۰۹، مطبع سہارن پور قدیم ۳/ ۲۴۰، فتح الباري، کتاب النکاح، باب الولیمۃ ولو بشاۃ، دارالفکر ۹/ ۲۳۴، أشرفیہ دیوبند ۹/ ۲۹۳، تحت رقم الحدیث: ۵۱۶۸) فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

ولیمہ تیسرے دن یا بعد میں کیا جائے تو کیا حکم ہے؟
شب ِزفاف کے تیسرے دن تک حدیث شریف سے ولیمہ کا ثبوت ہے اور بلا کسی عذر کے تیسرے دن ولیمہ کو حدیث پاک میں ریاکاری اور دکھلاوے سے تعبیر کیا گیا ہے؛ اس لئے تیسرے دن سے پہلے پہلے ولیمہ مسنونہ سے فارغ ہوجانا چاہئے؛ لیکن اگر سخت عذر کی وجہ سے دوسرے دن کے بعد تاخیر کی جائے تو اس کی گنجائش ہے۔
عن عبداﷲ -رضي اﷲ عنہ- قال: الولیمۃ أول یوم حق، والثاني فضل، والثالث ریاء وسمعۃ، ومن یسمّع یُسمّع اﷲ بہ۔ (المعجم الکبیر، دارإحیاء التراث العربي ۹/ ۱۹۷، رقم: ۸۹۶۷)
عن وحشي بن حرب بن وحشي عن أبیہ، عن جدہ قال: قال رجل یا رسول اﷲ! الولیمۃ؟ قال: الولیمۃ حق، والثانیۃ معروف، والثالثۃ فخر وحرج۔ (المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲۲/ ۱۳۷، برقم: ۳۶۲، أنوار نبوت/ ۶۶۰) فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

[vi] كفاية المفتى 5 /156

 

فتاوى دار العلوم زكريا:3 /63۳

جمہور علماء کے نزدیک مسنون ولیمہ شب زفاف یا خلوۃ صحیحہ کے بعد ہے، تاہم دیگر بعض علماء کے نزدیک عقد نکاح کے بعد بھی ولیمہ ہوسکتا ہے۔ 

 

عمدة القارى: ۱۶/۴۱۲

۔ ۔ ۔ ۔ و قد اختلف السلف في وقتها هل هو عند العقد أو عقيبه؟…و عن جماعة منهم انها عند العقد و عند ابن حبيب عند العقد و بعد الدخول و قال فى موضع اخر يجوز قبل الدخول و بعدهََََََََ ۔ ۔ ۔ ۔

[vii]  بذل المجهود 3/ 240 

واختلف السلف في وقتها هل هو عند العقد أو عقبه أو عند الدخول أو عقبه أو يوسع من إبتداء العقد إلى إنتهاء الدخول على أقوال قال السبكي والمنقول من فعل النبي صلى الله عليه وسلم أنها بعد الدخول وفي حديث أنس عند البخاري وغيره التصريح بأنها بعد الدخول لقوله اصبح عروسا بزينب فدعا القوم

[viii]  نفائس الفقہ جلد دوم  ص۱۷۲،۱۷۳،۱۷۴
– مؤلف : حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی
– ناشر : مکتبہ مسیح الامت دیوبند و بنگلور انڈیا

ولیمہ کون کرے؟
ولیمہ کرنا کس کی ذمے داری ہے،مرد کی یا عورت کی؟ حدیث سے اور عام طور پر فقہا کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ولیمہ کرنا مرد کی ذمے داری ہے ۔حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عبد الرحمن بن عوف کو ولیمے کا حکم دینا صاف مذکور ہے ،وہ حدیث مع تخریج اوپر گزر گئی ،نیز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے نکاح کے بعد ولیمہ خود فرمایا تھا ،اس سے معلوم ہوا کہ ولیمہ کرنا نکاح کرنے والے مرد کے ذمے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[ix]  فتاوی قاسمیہ جلد 12، ص۵۷۹
– مؤلف : حضرت مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی صاحب

ولیمہ صرف لڑکے کی طرف سے ہوتا ہے اور یہ ولیمہ صرف عقد نکاح کے بعد بھی جائز ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور شریعت میں لڑکی کی طرف سے ولیمہ کا کوئی ثبوت نہیں۔

[x]  نفائس الفقہ جلد دوم  ص۱۷۲،۱۷۳،۱۷۴
– مؤلف : حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی
– ناشر : مکتبہ مسیح الامت دیوبند و بنگلور انڈیا

ولیمہ کون کرے؟
ولیمہ کرنا کس کی ذمے داری ہے،مرد کی یا عورت کی؟ حدیث سے اور عام طور پر فقہا کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ولیمہ کرنا مرد کی ذمے داری ہے ۔حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عبد الرحمن بن عوف کو ولیمے کا حکم دینا صاف مذکور ہے ،وہ حدیث مع تخریج اوپر گزر گئی ،نیز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے نکاح کے بعد ولیمہ خود فرمایا تھا ،اس سے معلوم ہوا کہ ولیمہ کرنا نکاح کرنے والے مرد کے ذمے ہے۔


اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی رخصتی کرنی چاہی، تو خود ولیمہ کا انتظام کیا ،وہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے بنی قینقاع کے ایک سنار کو لے کر ’’اذخر‘‘ نامی گھاس لانا طے کیا ؛تاکہ اس کو سناروں سے بیچ کر ولیمہ کرنے میں امداد لوں۔ (۱) ) فتح المعین: ۲۶۷

ہاں اگر ضرورت مند ہو، تودوسرے تعلق دار دوست احباب اس میں اس کی امدادہدیہ کی شکل میں کریں، تو افضل ہے ،جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا سے نکاح کے بعد حضرت ام سلیم والدہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آپ کے لیے ’’حیس‘‘ نامی کھانا (جو کھجور ،خشک دودھ اور گھی سے تیار کیا جاتا ہے) ایک پتھر سے نبے ہوئے پیالے میں حضرت انس کے ہاتوں بھیجا اور یہ کہلایا کہ یہ ہماری طرف سے ایک قلیل ہدیہ ہے۔ (۲مسلم: ۲۵۷۳، ترمذی: ۳۱۴۲، نسائی: ۳۳۳۴
اس حدیث کے فوائد میں علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 
’’ فیہ أنہ یستحب لأصدقاء المتزوج أن یبعثوا إلیہ طعاماً یساعدونہ بہ علی ولیمتہ۔ ‘‘ 
(اس حدیث میں یہ افادہ بھی ہے کہ شادی کرنے والے کے دوست و احباب کے لیے یہ بات مستحب ہے کہ وہ اس کو کھانا بھیجیں جس کے ذریعہ اس کو ولیمہ کرنے میں مدد کریں۔(۳) شرح مسلم: ۴۶۹
آج کل جو ایک رسم نکلی ہے کہ ولیمہ لڑکے و لڑکی دونوں کی جانب سے کیا جاتا ہے اوپر کی تفصیل سے اس کا غلط ہونا معلوم ہوگیا ؛لہٰذا ولیمہ کی ذمے داری صرف لڑکے پر ہوگی اور اگر لڑکی والوں سے مطالبہ اس کا کیا جائے، تو بالکل ناجائز ہوگا ۔ ہاں! اگر لڑکی کا باپ یا خود لڑکی لڑکے کی اجازت سے بخوشی ولیمہ کردیں، تو سنت ولیمہ ادا ہوجائے گی۔ ۱) اعانۃ الطالبین: ۳/۳۵۷)
اسی طرح اگر لڑکا ولیمہ کرے اور لڑکی والے اپنے مزید لوگوں کو اس میں شامل کرنے کی غرض سے اس دعوت میں اپنا مال پیسہ ڈال کراس میں شریک ہو جائیں، تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی،واللہ اعلم۔

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: