Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Should we give our zakah to safeer of a Darul Uloom or should we give directly to a Darul Uloom?

Should we give our zakah to safeer of a Darul Uloom or should we give directly to a Darul Uloom?

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

assalamulaykum,

i would like to ask that during ramazan many safir come in masjid from various darul-uloom and collect zakat on behalf of that darul-uloom. On doing such service either they take some comission or money(may for their expense) from darul-uloom. Can we give zakat money to these people or should we pay zakat directly to darul ulooms.

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaikum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

A safeer of a Darul Uloom is an employee of a Darul Uloom to collect funds on behalf of the Darul Uloom. Zakah funds cannot be used to pay the salaries and travel expenses of a safeer. [1] [2]

If the safeer is from a reliable and reputable Darul Uloom and you are certain that the Darul Uloom does not pay the safeer travel expenses and wages from zakah, then zakah may be given to the safeer to hand over to the Darul Uloom. [3]   

A donor has a right to enquire the relevant questions from the safeer and satisfy himself that his zakah is being discharged correctly. If there is any doubt on the issue, then the donor should exercise precaution and give his zakah to the Darul Uloom directly.   

And Allah Ta’āla Knows Best

Rabiul Islam

Student Darul Iftaa
Detroit, Michigan, USA 

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

__________


[1]  مسند أحمد ط الرسالة (19/ 386 م: مؤسسة الرسالة) أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)

مُسْنَدُ الْمُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ. مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ:

12394 – حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي ذُو مَالٍ كَثِيرٍ، وَذُو أَهْلٍ وَوَلَدٍ، وَحَاضِرَةٍ، فَأَخْبِرْنِي كَيْفَ أُنْفِقُ؟ وَكَيْفَ أَصْنَعُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “تُخْرِجُ الزَّكَاةَ مِنْ مَالِكَ، فَإِنَّهَا طُهْرَةٌ تُطَهِّرُكَ (1)، وَتَصِلُ أَقْرِبَاءَكَ، وَتَعْرِفُ حَقَّ السَّائِلِ، وَالْجَارِ، وَالْمِسْكِينِ “، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَقْلِلْ لِي، قَالَ: “فَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ، وَالْمِسْكِينَ، وَابْنَ السَّبِيلِ، وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ” فَقَالَ: حَسْبِي يَا رَسُولَ اللهِ، إِذَا أَدَّيْتُ الزَّكَاةَ إِلَى رَسُولِكَ، فَقَدْ بَرِئْتُ مِنْهَا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” نَعَمْ، إِذَا أَدَّيْتَهَا إِلَى رَسُولِي، فَقَدْ بَرِئْتَ مِنْهَا، فَلَكَ أَجْرُهَا، وَإِثْمُهَا عَلَى مَنْ بَدَّلَهَا” (2)

__________

(1) في (ظ 4) : طهر يطهرك.

(2) رجاله ثقات رجال الشيخين، لكن قيل في رواية سعيد بن أبي هلال عن أنس: إنها مرسلة. ليث: هو ابن سعد، وخالد بن يزيد: هو الجمحي أبو عبد الرحيم المصري.

وأخرجه الحاكم 2/360-361 من طريق أبي الوليد الطيالسي، عن الليث بن سعد، بهذا الإسناد. وصححه على شرط الشيخين، ووافقه الذهبي.

قوله: “وحاضرة”، قال السندي: في “القاموس”: الحاضرة خلاف البادية، وكأن المراد ذو بيوت ومساكن.

“طُهْرة”، أي: تطهير من الذنوب.

 

کتاب النوازل (جلد: 7 ص: 187 مکتبہ جاويد ديوبند) مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری نائب مفتی و استاذ  حدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد

سفراء کو زکوة دینا اور تنخواہ وتعمیر وغیرہ میں زکوة صرف کرنا:

چنده محصلین کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

چنده محصلین جس طرح چنده  دہندگان کے وکیل ہیں اسی طرح مہتمم مدرسہ کے توسط سے طلبہ مستحقین کے بھی وکیل ہیں، اس لئے ان کو زکوۃ کی رقم دینے سے چندہ دہندگان کا زمہ فی نفسہ بری ہو جاۓگا، چندہ دینے کے بعد ان محصلین کی حیثیت امین کی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر امانت آمین کے ہاتھ میں لاپروائی کی وجہ سے ضائع ہو جاۓ تو امین اس کا ضامن ہوتا ہے، اور اگر حفاظت کے تمام انتظامات کے باوجود ضائع ہو جاۓ تو امین ضامن نہیں ہوگا۔۔۔

 

فتاوی محمودیہ (جلد: 9  ص: 508 مکتبہ: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی) فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوھی قدس سرّہ مفتی اعظم ھند و دار العلوم دیوبند

مدرسہ کا مہتمم وكیل ہوتا ہے طلبه (فقراء) کی طرف سے کہ ارباب اموال سے زکوۃ وصول کر کے طلبہ پر صرف کرے، اس صورت میں بلا شبه مختلف ارباب اموال کی زکوة كو خلط کرنا مہتمم کے لئے درست ہے،

ص 513-514: مہتمم مدرسہ طلبہ کا وکیل ہے یا معطی کا؟

مہتمم مدرسہ کو ارباب اموال نے صراحةً وکیل بنایا ہے کہ ہمارا مال حب صوابدید مصارف میں صرف کر دیں، غرباء کا بھی وكیل ہے اس طرح کہ طلبہ نے جب اس کے اہتمام کو تسلیم کر لیا تو گویا یہ کہ دیا کہ آپ ہمارے واسطے ارباب اموال سے زکوۃ وغیرہ وصول کر کے ہماری ضروریات (کھانا، کپڑا وغیرہ) میں صرف کر دیں۔ امداد الفتاوی جلد نمبر 3 کے اخیر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمة الله علیہ نے اس کے متعلق سوال کیا ہے اور حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا ہے۔ نہایت مفید علمی سوال ہے اور ایسا ہی جواب ہے، جس سے شبه مرتفع ہو جاتا ہے۔

•———————————•

 (1) (امداد الفتاوی، کتاب الوكالة : 3/316، دار العلوم کراچی) (۲) (تذكرة الرشيد، ص 164، بعنوان “شبهات فقهیه و مسائل مختلف فیها”)

 

فتاوی دار العلوم دیوبند یعنی امداد المفتین کامل (جلد: 2 ص: 1086-1085   مکتبہ: دار الاشاعات کراچی) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ مفتی اعظم پاکستان

مہتممينِ مدرسہ اور ان کے مقرر کردہ چندہ وصول کرنے والے عاملین صدقہ کے حکم میں داخل ہو کر فقراء کے وکیل ہیں، معطینِ چندہ کی وکالت صرف اس درجہ میں ہے کہ انہوں نے ان حضرات کو وکیل تسلیم کر کے اپنا چندہ ان کے حوالہ کر دیا تو جب بحیثیت وکیل فقراء رقم ان کے قبضہ میں چلی گئی تو وہ فقراء کی ملک ہوگئی، اور زکوة دینے والوں کی زکوة ادا ہوگئی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوی نے بھی ایک سوال کے جواب میں فرمایا: يه طلباء وفقراء مجهول الكمیت والذات ہیں اس کے باوجود ان کی وکالت مہتممانِ مدرسہ کے لئے عرفی طور پر ثابت ہوگئی اور ان کا قبضہ فقراء کا قبضہ ہو گیا۔  

 

فتاوی دار العلوم زکریا (جلد: 3 ص: 187-186 مکتبہ: زمزم پبلشرز) حضرت مفتی رضار الحق صاحب مد ظلہ شیخ الحدیث و مفتی دار العلوم زکریا، جنوبی افریقہ

 

فتاوی دار العلوم کراچی امداد السائلین (جلد: 2 ص: 544- 543مکتبہ: ادارۃ المعارف کراچی، پاکستان) حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہ العالیہ مفتئ اعظم پاکستان

كتاب الزكوة. فصل في مصارف الزکوة:

مہتمم زکوۃ لینے میں طلبہ کا وکیل ہوتا ہے: ملاحظہ ہو۔

 

فتاوی قاسمیہ (جلد: 11 ص: 93-90  مکتبہ: اشرفیہ، دیوبند الھند، یوپی (انڈیا) حضرت مولانا مفتی شبّیر احمد القاسمی خادم الافتاء والحدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد، الھند

“مہتمم معطيين وطلبه دونوں کا وكیل”: ملاحظہ ہو۔

ص 184-182: “مہتمم معطيين وطلبه دونوں کا وكیل”: ملاحظہ ہو۔

ص 185:“مہتمم وسفراء طلبه ومعطيين دونوں کے وكیل”: ملاحظہ ہو۔ 

ص 194: سفیر کی شرعی حیثیت؟: ملاحظه هو۔

ص 181-179: (سفراء کے احکام) سفراء مدارس اور عاملین کے درمیان کیا فرق ہے؟: ملاحظه هو۔

ص 182: کیا سفراء عاملین کے حکم میں ہیں؟: ملاحظه هو۔  

 

فتاوی دار العلوم کراچی امداد السائلین (جلد: 2 ص: 433-432 مکتبہ: ادارۃ المعارف کراچی، پاکستان) حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہ العالیہ مفتئ اعظم پاکستان

صحيح طریقه حیله تملیک:  ملاحظہ ہو۔

 

 [2] شرح مسند أبي حنيفة (1/ 124 دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان) علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ)

شرح المسند – سوم على سوم غيره:

وروى أحمد عن أبي سعيد أنه عليه الصلاة والسلام نهى عن استيجار الأجير إلا حتى تبين له أجره.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 297 م: دار الكتاب الإسلامي) زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ)

كتاب الإجارة.

(قوله هي بيع منفعة معلومة بأجر معلوم) يعني الإجارة

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 121 م: المطبعة الكبرى الأميرية – بولاق، القاهرة) عثمان بن علي بن محجن البارعي، فخر الدين الزيلعي الحنفي (المتوفى: 743 هـ)

كتاب الإجارة. باب الإجارة الفاسدة:

وكذلك اشتراط كري نهر في الأرض أو ضرب مسناة عليها أو حفر بئر فيها أو أن يسرقنها على المستأجر، وكذلك اشتراط رد الأرض مكروبة، كل ذلك يفسد الإجارة؛ لأنه جعل هذه الأعمال من جملة الأجر وأنها مجهولة غير معلومة وجهالة بعض الأجر توجب جهالة الباقي فتفسد به الإجارة قال الشيخ أبو الحسن الكرخي في مختصره إذا كان ما وقع عليه عقد الإجارة مجهولا في نفسه أو في أجره أو في مدة الإجارة أو في العمل المستأجر عليه فالإجارة فاسدة وكل جهالة تدخل في البيع فتفسده من جهة الجهالة فكذلك هي في الإجارة.

فتح القدير للكمال ابن الهمام (9/ 65 م: دار الفكر) كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ)

كتاب الإجارات. باب الأجر متى يستحق:

قال صاحب النهاية: لما ذكر أن صحة الإجارة موقوفة على أن تكون الأجرة معلومة

مجلة الأحكام العدلية (ص: 86 م: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي) لجنة مكونة من عدة علماء وفقهاء في الخلافة العثمانية)

الكتاب الثاني: في الإجارات. الباب الثاني: في بيان المسائل المتعلقة بالإجارة ويشتمل على أربعة فصول: الفصل الثالث في شروط صحة الإجارة:

(المادة 450) : يشترط أن تكون الأجرة معلومة.

فتاوى رحيمية (جلد: 7 ص: 182-181 مکتبہ: دار الاشاعت) حضرت مولانا حافظ قاری مفتی سید عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ خطیب بڑی جامع مسجد راندیر ضلع سورت

كتاب الزكوة. مصارف زکوة:

مدرسہ میں زکوة اور اس کا مصرف:

زکوۃ کی رقم اجرت (کسی کام کے بدلہ) میں دینا درست نہیں ہے، مزدوری اور کرایہ میں بھی نہیں دی جاسکتی، سفیر کے اخراجات میں اور کھانے پینے میں یہ رقم صرف نہیں ہوسکتی، مستحق زکوة کو بلاعوض دی جاۓ، زکوۃ کی رقم سے کتب خانہ کے لئے کتابیں خریدنا بھی جائز نہیں بجلی، پانی اور مکان کے ٹیکس میں استعمال کرنے سے زکوة اداء نہ ہوگی طلباء کو دے کر مالک بنا دیا جاۓ اور وہ اپنے لئے کتابیں خرید لیں اور واپس لینے کی شرط نہ ہو۔

احسن الفتاوی (ج: 6 ص: 468-467 مکتبہ: ایچ ایم سعید کمپنی) فقیہ العصر مفتی اعظم حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالی

چندہ لانے والے کی اجرت اسی چندہ سے: ملاحظہ ہو۔


کتاب النوازل (جلد: 7 ص: 190 مکتبہ جاويد ديوبند) مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری نائب مفتی و استاذ  حدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد

کمیشن طے کر کے زکوۃ وصول کرنا؟

کمیشن پر زکوۃ وصول کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ اجارۂ مجہولہ ہے، اور جو ذمہ داران مدارس زکوۃ کے مال سے کمیشن دیتے ہیں اور جوسفراء کمیشن لیتے ہیں، ان سے عند الله مؤاخذہ ہوگا؛ کیوں کہ وہ فقیر طلبہ کے وکیل بن کر ان کی حق تلفی کرنے والے ہیں، تاہم زکوة دینے والوں کی زکوة ادا ہو جاۓ گی؛ کیوں کہ انہوں نے فقراء کے وکیل کے قبضہ تک زکوۃ کو پہنچا دیا ہے۔

ص 193: كيا کمیشن پر چندہ کرنے والوں کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہو جاۓ گی؟

کمیشن پر چندہ کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ اجاره مجہولہ ہے، سفير پر لازم ہے کہ وہ زکوۃ کی وصول شدہ پوری رقم مدرسہ کے فنڈ میں جمع کرے، جب تک وه پوری رقم جمع نہ کرے اسے معاوضہ وغیرہ لینا جائز نہیں ہے، تاہم چوں کہ وہ مدرسہ کی طرف سے زکوة وصول کرنے کا وکیل ہے، اس لئے اس کو زکوۃ دینے سے زکوة ادا ہو جاۓ گی، اب اگر وہ جمع کرنے میں کوتاہی کرےگا تو خود اس کا ذمہ دار ہوگا۔

ص 194: زکوة كى رقم سے سفير كو ڈبل تنخواہ دینا: ملاحظه هو۔

فتاوى عثمانیہ (جلد: 4 ص: 103-102 م: ادارہ العصر اکیڈمی  پشاور، پاکستان) شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی غلام الرحمن مد ظلہ مہتمم ورئیس دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور 

كتاب الزكوة. باب المصارف:

 زکوة میں سے سفیر کو رقم دینا:

کسی ادارے کے سفیر کی حیثیت اجیر کی ہوتی ہے اور عقد اجارہ میں ضروری ہے کہ اجرت متعین ہو اور عمل بھی۔ صورت مسئولہ میں كمیشن پر چندہ اکٹھا کرنا دو وجہ سے اجاره فاسدہ ہے۔ ایک بوجہ جہالت اجرت، کیونکہ چنده کی مقدار مجہول ہے اس لئے اجرت بھی مجہول ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اس میں اجرت عمل اجیر سے حاصل ہوتی ہے اور شریعت مطهره میں يه بھی ناجائز ہے۔ البته يه صورت اختیار کرنا جائز ہے کہ سفیر کے لئے لوگوں کے پاس جانے اور مدرسہ کی ضروریات بتا کر چندہ کی ترغیب دینے کے عوض روز مرہ يا ماهانه حساب سے اجرت مقرر کی جاۓ۔ اسی طرح چنده میں زکوۃ کی مد میں جو رقم جمع ہوجاۓ، اس کی تملیک سے قبل سفیر  کو تنخواہ میں دینا جائز نہیں، البتہ مستحق طلب سے تملیک کروانے کے بعد اگر وہ مدرسہ میں جمع کریں تو اس سے سفیر یا دیگر عملہ کی تنخواہیں دی جاسکتی ہیں۔

فتاوی قاسمیہ (جلد: 11 ص: 89-88  مکتبہ: اشرفیہ، دیوبند الھند، یوپی (انڈیا) حضرت مولانا مفتی شبّیر احمد القاسمی خادم الافتاء والحدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد، الھند

مد زکوة سے سفراء كى تنخواہ: ملاحظه هو۔

ص 142-141: أيضًا “مد زکوة سے سفراء كى تنخواہ”: ملاحظه هو۔

ص 202-201: “سفراء كا زکوة كى رقم سفر وطعام میں خرچ کرنا”:  ملاحظه هو۔

ص 211-210: “چندہ کرنے والے مدرس کا اسی رقم سے سفر خرچ اور تنخواہ لینا”:  ملاحظه هو۔

[3]  آپ کے مسائل اور انکا حل (جلد:  5 ص: 169-168 م: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند) حضرت مولانا محمد یوسف لُدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالی

زکوة کے مسائل۔ کن لوگوں کو زکوة دے سکتے ہیں؟ (مصارف زکوة)۔

زکوة اور کھالیں ان تنظيموں کو دیں جو صحيح مصرف میں خرچ کریں:

۔۔۔جن اداروں اور تنظيموں کے بارے میں پورا اطمینان ہو کہ وہ زکوة کی رقم کو ٹھیک طریقے سے صحيح مصرف پر خرچ کرتے ہیں، ان کو زکوة دینی چاہۓ اور جن کے بارے میں یہ اطمینان نہ ہو ان کو دی گئی زکوة اداءنہیں ہوئی، ان لوگوں کو چاہئے کہ اپنی زکوة کو دوبارہ ادا کریں۔

صفحة 166:  مدرسے کا چندہ مانگنے والوں کو بغیر تحقیق کے زکوة دینا: ملاحظہ ہو۔

 

کتاب النوازل (جلد: 7 ص: 189 مکتبہ جاويد ديوبند) مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری نائب مفتی و استاذ  حدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد

کیا سفراء کو زکوة دینے سے زکوة ادا ہو جاۓگی؟

 اگر آپ کو کسی سفیر یا مدرسہ کے بارے میں اطمینان ہو جاۓ اور آپ بلا  تکلف اس کو زکوة کی رقم دے دیں، تو آپ کے ذمہ سے فریضہ ساقط ہو جاۓگا، اب سفیر پر لازم ہے کہ وہ پوری رقم حسب ضابطہ مدرسہ کے فنڈ میں جمع کرے، اس کے بعد ہی اپنا طے شده حق المحنت حاصل کرے، اگر وہ سفیر اس میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ خود اس كا ذمہ دار ہوگا، اور زکوة دینے والوں کی زکوة ادا ہو جاۓگی۔

 

فتاوی قاسمیہ (جلد: 11 ص: 50-49  مکتبہ: اشرفیہ، دیوبند الھند، یوپی (انڈیا) حضرت مولانا مفتی شبّیر احمد القاسمی خادم الافتاء والحدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد، الھند

11/ بقية كتاب الزكوة. 7/ باب: مدارس میں زکوۃ صرف کرنے کا بیان:  

ذمہ دار حضرات زکوۃ مصرف میں خرچ نہ کریں تو گناہ کس پر ہے؟

مدرسہ کے ذمہ دار حضرات نے زکوۃ کا پیسہ اگر مصرف زکوۃ میں خرچ نہیں کیا ہے تو یہ لوگ شرعا خائن اور گنہگار ہونگے، ان کے ذمہ اس کا تاوان ادا کرنا لازم ہے-

 

نا معلوم سفراء کو زکوۃ دینے کا مسئلہ:

اگر زکوۃ دہندگان نے لا علمی سے ایسے شخص کو زکوۃ دیدی ہے تو ان کی زکوۃ ادا ہوگئی اور دھوکہ دیکر وصول کرنیوالا شخص جب تک اس رقم کو مصرف تک نہ پہونچاۓگا، اس وقت تک عند اللہ یہ مستحق مؤاخذہ ہوگا، اس شخص پر اس رقم کو مصرف تک پہونچانا لازم ہے، اور اگر زکوۃ  دہندگان نے معلوم ہونے کے باوجود ایسے شخص کو زکوۃ کی رقم دیدی، تو پھر ایسی صورت میں یہ لوگ اپنے فریضہ سے بری نہ ہوں گے، بلکہ زکوۃ بدستور ذمہ میں باقی رہےگا

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: