Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Paying tax to the government with the interest money

Paying tax to the government with the interest money

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

Assalamualykum ww,

I wanted to confirm your fatwa on whether paying tax to the government using the interest received from the same government bank is halaal?!

jazakallah khair

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

In principle, it is impermissible to earn interest or to pay interest.

See the following hadith:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»

Translation: Jabir Radhi Allahu Anhu narrates that Nabi Sallalahu Alaihi Wasallam cursed the accepter of interest and its payer, and one who records it, and the two witnesses, and he said: They are all equal.

(Saheeh al-Muslim)[i]

In an unfortunate situation where one earned interest, the interest earned must be given in charity without the niyyat of thawab. [ii]

There is also leeway for one to offset taxes to the government with the interest earned from the government bank. [iii] [iv] [v]

And Allah Ta’āla Knows Best

Mirza Mahmood Baig

Student Darul Iftaa

Jeddah, KSA

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

_______


[i]  صحيح مسلم (3/ 1219)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»

 

[ii]  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة آل عمران: 130)

و أحل الله البيع و حرم الربو (البقرة : 275)

 

 سنن ابن ماجة ـ محقق ومشكول ٣٣٧٧

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الربوا سبعون حوبا أيسرها ان ينكح الرجل أمه

 

 مسند أحمد بن حنبل ٥٢٢٥

درهم ربوا ياكله الرجل وهو يعلم أشد من ستة وثلاثين زنية

 

شامي: 5/169، كراتشي

ويجب رده لو قائما ورد مثله، أو قيمته لو مستهلكا…

 

فتاوى محموديه: 4/203

 

[iii]  فتاوى هندية: 5/349

يردوا المال إلى أربابه، فإن لم يعرفوا أربابه، تصدقوا به …

 

’’ رد المحتار ‘‘ ۷/۳۰۱ ، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالا حراما:

والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ، ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔ 

’’ بذل المجہود ‘‘ ۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ :

صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالاً بغیر حق ، فأما إذا کان عند رجل مال خبیث ، فأما إن ملکہ بعقد فاسد ، أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمۃ عن نفسہ ، فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔ 

’’ رد المحتار ‘‘ ۹/۵۵۳ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع:

 سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ ۔ 

 

[iv]  محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1، ص۴۰۷،۴۰۸
– مؤلف : حضرت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی صاحب

سودی رقم انکم ٹیکس میں ادا کرنا
مسئلہ(۳۳۳): گورنمنٹ بینک سے ملی ہوئی سودکی رقم انکم ٹیکس اور ہر ایسے غیر شرعی ٹیکس میں دے سکتے ہیں، جو مرکزی حکومت کے ہیں اور ایسے ٹیکس میں دینا درست نہ ہوگا جو مرکزی حکومت کے نہیں ہیں، اور جو بھی حرام مال ہو اس کے متعلق بھی اصل حکم یہی ہے کہ جس کا وہ مال ہے اس کی ملک میں کسی تدبیر سے لوٹادے ، اور جب اصل مالک کی ملک میں نہ پہنچاسکے، تو خود کسی کام میں استعمال نہ کرے، بلکہ اس کے وبال سے بچنے کے لیے اصل مالک کی طرف سے بنیتِ صدقہ کسی مستحق کو دیدے۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(الحجة علی ما قلنا : 

۱) ما في ’’ بذل المجہود ‘‘ : وأما إذا کان عند رجل مال خبیث ، فإما إن أمکنہ بعقد فاسد ، أو حصل لہ بغیر عقد ، ولا یمکنہ أن یردّ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ، لأنہ لو أنفق علی نفسہ فقد استحکم ما یرتکبہ من الفعل الحرام ۔ (۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ ، باب فرض الوضوء)
ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : لو مات الرجل وکسبہ من بیع البازق ، أو الظلم ، أو أخذ الرشوۃ یتورع الورثۃ ، ولا یأخذون منہ شیئاً ، وہو أولی بہم ، ویردّونہا علی أربابہا إن عرفوہم ، وإلا تصدّقوا بہا ، لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذّر الردّ علی صاحبہ ۔ 
(۹/۴۷۰ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع)
ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : إن کان المال بمقابلۃ المعصیۃ ، فکان الأخذ معصیۃ ، والسبیل في المعاصي ردّہا ، وذلک ہہنا بردّ المأخوذ إن تمکن من ردّہ بأن عرف صاحبہ ، وبالتصدق بہ إن لم یعرفہ لیصل إلیہ نفع مالہ ۔ 
(۵/۳۸۹ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب الخامس عشر في الکسب) (منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۱۸۵ )
ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وفي المنتقی : امرأۃ نائحۃ أو صاحبۃ طبل أو زمر اکتسبت مالا ردتہ علی أربابہا إن علموا ، وإلا تتصدق بہ ۔ (۹/۶۵ ، کتاب الإجارۃ ، الاستئجار علی المعاصي)
ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : ما یکسبہ المقامر وہو کسب خبیث ، وہو من المال الحرام مثل کسب المخادع المقامر ، والواجب في الکسب الخبیث تفریغ الذمۃ منہ بردّہ إلی أربابہ إن علموا ، وإلا إلی الفقراء ۔ (۳۹/۴۰۷ ، الکسب الناشي عن المیسر)

 

 

 

[v]  فتاوی قاسمیہ جلد 20،ص۷۳۹،۷۴۰
– مؤلف : حضرت مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی صاحب

سرکاری بینک سے ملی ہوئی سودی رقم سیل ٹیکس اورانکم ٹیکس میں دینا جائز ہے؛ لہٰذا کسٹم کے روک لگانے پر ٹیکس میں جو رقم دی جائے، اس میں سرکاری بینک کی سودی رقم دینا جائز ہے اور باقی رشوت میں جو دی جائے، اس میں سودی رقم دیناجائز نہیں ہے۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ قدیم ۴؍۲۰۳، جدیدڈابھیل ۱۶؍۳۸۳، ایضاح النوادر ۱؍۱۰۰، ایضاح المسائل ۱۴۲)

صرح الفقہاء: بأن من اکتسب مالا بغیر حق، فإما أن یکون کسبہ بعقد فاسد کالبیوع الفاسدۃ والاستئجار علی المعاصي-إلی قولہ-ففي جمیع الأحوال المال الحاصل لہ حرام علیہ؛ ولکن إن أخذہ من غیر عقد لم یملکہ ویجب علیہ أن یردہ علی مالکہ، إن وجد المالک۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء، سہارنپور۱/۳۷، دارالبشائر الإسلامیۃ، بیروت۱/۳۵۹، تحت رقم الحدیث: ۵۹، وہکذا في الشامي، زکریا ۹/۵۵۳، کراچي ۶/۳۸۵، تبیین الحقائق امدادیۃ ملتان ۶/۲۷، زکریا ۷/۶۰، البحرالرائق، زکریا ۹/۳۶۹، کوئٹہ۸/۲۰۱، ہندیۃ، زکریا قدیم ۵/۳۴۹، جدید ۵/۴۰۴، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۳۴/۲۴۶، حاشیۃ ترمذي ۱/۳، معارف السنن، اشرفیۃ دیوبند ۱/۳۳-۳۴)فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

 

  • فتاوی دینیہ جلد 4، ص۱۹۴،۱۹۵
    – مؤلف : حضرت مولانا مفتی اسماعیل کچھولوی صاحب

 

{۲۲۲۴} حکومت کے ٹیکس میں سود کی رقم دینا
سوال: بینک سے جو سود ملتا ہے اس سود کی رقم حکومت کے ٹیکس میں دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ اور ان ٹیکس میں دینے پر سود لینے کے وبال سے نجات ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ یا غرباء کو ثواب کی نیت کے بغیر دینا ضروری ہے؟ حکومت تو غیر مسلم ہوتی ہے۔
الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلما : …بہتر تو یہی ہے کہ سود کے وبال سے بچنے کی نیت سے وہ رقم غریب محتاج کو دے دی جائے، البتہ حکومت کے ناجائز ٹیکس میں یہ رقم دینے کی گنجائش بھی ہے۔ فقط و اللہ تعالی اعلم

 

۲۲۲۶} سود کی رقم سے سرکاری ٹیکس ادا کرنا
سوال: کیا بینک کے سود سے انکم ٹیکس بھر سکتے ہیں ؟
الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلماً… بینک سے ملی ہوئی سود کی رقم غریب اورمستحق کو ثواب کی نیت کے بغیر اپنے سر سے وبال اتارنے کی نیت سے دے دینا چاہئے، انکم ٹیکس میں بھی بھرنے کی گنجائش ہے۔ فقط و اللہ تعالی اعلم

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: