Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » A polio-affected person, spine problem, wheelchair-bound; how to keep fardh fasts?

A polio-affected person, spine problem, wheelchair-bound; how to keep fardh fasts?

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

Assalamu alykum,

My wife is physically challenged with polio affected on her both legs and is completely driven by the wheelchair. Alhamdulillah, she still takes care of me and my overactive toddler Masha’Allah. Because she sits in the wheelchair round the clock for many years now, she has developed a problem in her spine which started curving a little. She has to eat something in regular intervals to keep her going, otherwise she would feel enormous pain in her spine and in her pelvis.

I request the honourable Ulama to advice on her compulsory Fasting.

JazakAllah Khair

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

We make dua’a that Allaah Ta’ala grant your wife the courage to overcome the challenges of her sicknesses. Aameen.

In principle, if one fears that one will become sick by fasting or one’s sickness will be aggravated by fasting or one’s recovery will be prolonged due to fasting, then such a person is excused from fasting. If one is expected to recover from his illness, then he has to make up Qadha of these missed fasts.[1] [2] [3]

In the enquired situation, if your wife is unable to fast due to extreme pain in her spine and pelvis, then she will be exempted from fasting. She has to compensate by keeping one Qadha fast for every missed fast.

However, if the sickness is permanent and there is no hope of recovery then one must offer fidya (monetary compensation) for every missed fast.

The value of this Fidya is the same as Sadaqatul fitr i.e. approximately 1.6 kg of wheat or its equivalent value in local currency i.e. 20 Saudi Riyals approximately.[4] [5]

And Allah Ta’āla Knows Best

Mirza Mahmood Baig

Student Darul Iftaa

KSA

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

_____


[1]  حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص: 453)

وأفاد القهستاني عن الكرماني أن المريض إذا تحقق اليأس من الصحة أي صحة يقدر معها على الصوم فعليه الفدية لكل يوم وإن لم يقدر على الصوم لشدة الحر أفطر ويقضيه في الشتاء كما في البحر….

 

رد المحتار (7/ 488)

( أَوْ مَرِيضٍ خَافَ الزِّيَادَةَ ) لِمَرَضِهِ وَصَحِيحٍ خَافَ الْمَرَضَ ، وَخَادِمَةٍ خَافَتْ الضَّعْفَ بِغَلَبَةِ الظَّنِّ بِأَمَارَةٍ أَوْ تَجْرِبَةٍ أَوْ بِأَخْبَارِ طَبِيبٍ حَاذِقٍ مُسْلِمٍ مَسْتُورٍ وَأَفَادَ فِي النَّهْرَ تَبَعًا لِلْبَحْرِ جَوَازَ التَّطْبِيبَ بِالْكَافِرِ فِيمَا لَيْسَ فِيهِ إبْطَالُ عِبَادَةٍ .

 

نور الايضاح، ص 132

و عليه الوصية بما قدر عليه و بقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك لصوم كل يوم و لصلوة كل وقت، حتي الوتر، نصف صاع من بر أو قيمته، و ان لم يوص و تبرع عنه وليه جاز .

 

 [2]فتاوی حقانیہ جلد 4، ص۱۹۲، مؤلف : حضرت مولانا عبد الحق صاحب

شدید بیمار کیلئے روزہ افطار کرنا جائز ہے ۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد 3 – یونیکوڈ – غیر موافق للمطبوع،ص۴۶۶، مؤلف : حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب

س… اگر کوئی شخص بوجہ بیماری رمضان المبارک کے روزے نہ رکھ سکے تو وہ کیا کرے؟ نیز یہ بھی فرمائیے کہ ایسے شخص کی تراویح کا کیا بنے گا؟ وہ تراویح پڑھے گا یا نہیں؟

ج… جو شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے کے بعد روزوں کی قضا رکھ لے، اور اگر بیماری ایسی ہو کہ اس سے اچھا ہونے کی اُمید نہیں، تو ہر روزے کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ دے دیا کرے۔ اور تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔

 

 [3]کتاب المسائل جلد 2، ص۱۶۶، مؤلف : مولانا مفتی سید محمد سلمان منصور پوری صاحب

سخت بیماری کے وقت روزہ افطار کرلینا
سخت بیماری کی وجہ سے اگر روزہ افطار کرلے تو اس کو صرف قضاء کرنی پڑے گی کفارہ نہیں۔ أو مریض خاف الزیادۃ لمرضہ … بغلبۃ الظن بامارۃ أو تجربۃ أو بإخبار طبیب حاذق مسلم مستور… وقضوا لزوماً ما قدروا۔ (شامی زکریا ۳؍۴۰۳، شامی بیروت۳؍۳۶۰، ومثلہ فی تبیین الحقائق ۲؍۱۸۹، مجمع الانہر ۱؍۲۴۸، فتاویٰ دارالعلوم ۶؍۴۲۲)

 

 [4]  روزے کے مسائل، ص۲۲،  مؤلف : حضرت مولانا مفتی مبین الرحمن صاحب

فدیہ کے احکام:
1: اگر کسی شخص سے رمضان کا ایک یا ایک سے زائد روزے قضا ہوجائیں تو ان کی قضا رکھنا ضروری ہے۔ فدیہ تو اس وقت دیا جاتا ہے جب کوئی ایسا مرض یا عذر لاحق ہو کہ روزہ رکھنے کی امیدہی نہ رہے، جب تک صحت یابی کی امید ہو تو فدیہ دینے کا حکم لاگو نہیں ہوتا۔ جب صحت یابی کی امید نہ رہے تو اس صورت میں فدیہ دے دے ، پھر اگر بعد میں اللہ تعالی نے صحت دے دی تو ان روزوں کی قضا رکھنا ضروری ہوگا اور فدیہ میں جو رقم دی تھی اس کا ثواب ملے گا، اور اگر فدیہ دینے کا موقع نہ ملے تو وصیت کرجائے کہ میرے ذمے اتنے روزے باقی ہیں، ان کا فدیہ دے دیا جائے۔(رد المحتار،ماہِ رمضان کے فضائل و احکام،فتاوی ٰعثمانی)

2: ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، جس دن فدیہ دینا ہو تو اس دن صدقہ فطر کی قیمت معلوم کرکے اسی حساب سے فدیہ ادا کیا جائے۔(رد المحتار،فتاویٰ عثمانی،فتاویٰ رحیمیہ)

3: اگر میت نے وصیت کی ہو کہ میرے روزوں کا فدیہ ادا کیا جا ئے اور اس نے مال بھی چھوڑا ہو تو اس وصیت کو پورا کرنا ضروری ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ اگر میت پر کوئی قرضہ ہو تو سب سے پہلے میت کے مال میں سے قرضہ اداکیا جائے ، پھر اس کے بعد کل مال کے ایک تہائی حصے میں سے فدیہ کی یہ وصیت پوری کی جائے۔ اگر وہ ایک تہائی مال کم پڑ رہا ہو اور وہ وصیت اس میں پوری نہیں ہو پارہی ہو تو اس وصیت کو پورا کرنے کے لیے ایک تہائی سے زیادہ رقم خرچ کرنا ورثا کے ذمے لازم نہیں، البتہ اگر وہ خوشی سے دے دیں تو میت پراحسان ہوگا۔ اسی طرح اگر میت نے مال نہیں چھوڑا ہو یا اس نے وصیت ہی نہیں کی ہو تو اس کی طرف سے فدیہ ادا کرنا واجب تو نہیں لیکن میت پر احسان کرتے ہوئے ادا کردینا ایک بہترین عمل ہے۔
(رد المحتار علی الدر المختار،ماہِ رمضان کے فضائل و احکام)

4: فدیہ صرف انہی لوگوں کو دینا جائز ہے جن کو زکوةدینا جائز ہے۔
(رد المحتار،ماہِ رمضان کے فضائل و احکام، فتاوی ٰعثمانی)

 

 [5]  رمضان المبارک کے فضائل و مسائل جلد دوم، ص۱۷۷، مؤلف : حضرت مولانا ڈاکٹرحکیم محمدادریس حبان رحیمی چرتھاؤلی صاحب پی ایچ ڈی 

فدیہ کی مقدار 
فدیہ کے معنی لغت میں بدلہ کے آتے ہیں، یعنی روزہ کا بدلہ، فدیہ کی مقدار کے بارے میں آیت میں ذکر فرمایا ہے۔ ’’ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ‘‘ (ایک محتاج کا کھانا) 

حضرت امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی مقدرا صدقۂ فطر کی طرح نصف صاع گندم یا ایک صاع جو یا کھجور ہے، یہی اشیاء دیدے یا ان کی قیمت بازار سے معلوم کرکے کسی غریب کو مالکانہ طور پر بغیر کسی عوض کے دیدے۔ مسئلہ: افضل اور بہتر یہ ہے کہ ایک روزہ کا فدیہ ایک غریب کو دیا جائے ، کئی غریبوں پر تھوڑا تھورا کرکے تقسیم نہ کیا جائے، اسی طرح کئی روز کے فدیے الگ الگ غریبوں کو دیئے جائیں، ایک ہی غریب کو سب فدیہ جمع کرکے نہ دیے جائیں ۔ لیکن اگر اس کے خلاف کردیا یعنی  ایک فدیہ کئی غرباء پر تقسیم کیا، یا کئی فدیئے ایک ہی غریب کو دے دیئے، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (انوار القران ، معارف القرآن) 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: