Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Ibadhi Sect

Ibadhi Sect

Assalamu Alaikum,

Are Ibadis considered Muslims or are they out of the folds of Islam. Are Sunni Muslims allowed to pray behind them? Are we allowed to eat meat from them? If possible, please give views of several Ulama, and please do not have extremely narrow minded views. 

Jazakallah.

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

There are many sects among the Ibadhi’s. In order for us to advise you and to be broadminded and fair, kindly outline the views and beliefs of the Ibadhi’s in general and of a particular sect you enquire about. [1] [2] You may email: admin@daruliftaa.net  

And Allah Ta’āla Knows Best

Safwaan Ibn Ml Ahmed Ibn Ibrahim

Student Darul Iftaa
Limbe, Malawi

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

________________________

مقالات الإسلاميين ت ريتر (ص: 102) – دار فرانز شتايز، بمدينة فيسبادن (ألمانيا) – [1]

 أبو الحسن علي بن إسماعيل بن إسحاق بن سالم بن إسماعيل بن عبد الله بن موسى بن أبي بردة بن أبي موسى الأشعري (المتوفى: 324هـ)

ومن الخوارج الإباضية فالفرقة الأولى منهم يقال لهم الحفصية كان إمامهم حفص بن أبي المقدام زعم…

احسن الفتاوی (1/198) – سعید

”مسقط میں جو اباضی فرقہ ہے، ان کے صحیح عقائد کیا ہیں؟ اس کی ہمیں تحقیق نہیں، ان کے متعلق صحیح فیصلہ جب ہوسکے گا جب کہ ان کے عقائد بھی ذکر کیے جائیں، البتہ عبداللہ بن اباض کی جانب منسوب جو فرقہٴ اباضیہ ہے اور جو خوارج ہی کی شاخ ہے، ان کے عقائد کتابوں میں ملتے ہیں، اگر یہ فرقہ بعینہ وہی ہے یا ان کے عقائد ان کے مطابق ہیں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، اس لیے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے“۔ (احسن الفتاویٰ: ۱/۱۹۸)

[2] الملل والنحل (1/ 134) – مؤسسة الحلبي

 الإباضية:

أصحاب عبد الله بن إباض الذي خرج في أيام مروان بن محمد، فوجه إليه عبد الله بن محمد بن عطية، فقاتله بتبالة وقيل إن عبد الله بن يحيى الإباضي كان رفيقا له في جميع أحواله وأقواله. قال: إن مخالفينا من أهل القبلة كفار غير مشركين، ومناكحتهم جائزة، وموارتهم حلال، وغنمية أموالهم من السلاح والكراع عند الحرب حلال، وما سواه حرام. وحرام قتلهم وسبيهم في السر غيلة، إلا بعد نصب القتال، وإقامة الحجة.

وقالوا: إن دار مخالفيهم من أهل الإسلام دار توحيد، إلا معسكر السلطان فإنه دار بغي. وأجازوا شهادة مخالفيهم على أوليائهم. وقالوا في مرتكبي الكبائر: إنهم موحدون لا مؤمنون.

وحكى الكعبي عنهم: أن الاستطاعة عرض من الأعراض، وهي قبل الفعل، بها يحصل الفعل، وأفعال العباد مخلوقة لله تعالى: إحداثا وإبداعا، ومكتسبة للعبد حقيقة، لا مجازا. ولا يسمون إمامهم أمير المؤمنين، ولا أنفسهم مهاجرين. وقالوا: العالم يفنى كله إذا فنى أهل التكليف. قال: وأجمعوا على أن من ارتكب كبيرة من الكبائر كفر، كفر النعمة، لا كفر الملة، وتوقفوا في أطفال المشركين، وجوزوا تعذيبهم على سبيل الانتقام، وأجازوا أن يدخلوا الجنة تفضلا. وحكى الكعبي عنهم أنهم قالوا بطاعة لا يراد بها الله تعالى، كما قال أبو الهذيل.

ثم اختلفوا في النفاق: أيسمى شركا أم لا:؟ قالوا: إن المنافقين في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا موحدين، إلا أنهم ارتكبوا الكبائر، فكفروا بالكبيرة لا بالشرك، وقالوا: كل شيء أمر الله تعالى به فهو عام ليس بخاص، وقد أمر به المؤمن والكافر، وليس في القرآن خصوص، وقالوا: لا يخلف الله تعالى شيئا إلا دليلا على وحدانيته، ولابد أن يدل به واحدا. وقال قوم منهم: يجوز أن يخلق الله تعالى رسولا بلا دليل، ويكفلف العباد بما أوحي إليه، ولا يجب عليه إظهار المعجزة، ولا يجب على الله تعالى ذلك إلى أن يخلق دليلا، ويظهر معجزة. وهم جماعة متفرقون في مذاهبهم تفرق الثعالبة والعجاردة.

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (1/ 59) – دار الفكر – سوريَّة – دمشق

أبو الشّعثاء التابعي جابر بن زيد (المتوفى سنة 93هـ / 711م) مؤسس مذهب الإباضية، الذي ينسب عادة إلى عبد الله بن إباض التميمي (المتوفى عام 80 هـ).

كان جابر بن زيد من العلماء التابعين العاملين بالقرآن والسنة، تتلمذ على ابن عباس رضي الله عنهما، وأصول فقه الإباضية كأصول المذاهب الأخرى المعتمدة على القرآن والسنة والإجماع والقياس والاستدلال أو الاستنباط بجميع طرقه من الاستحسان والاستصلاح (المصالح المرسلة) والاستصحاب وقول الصحابي وغيرها. والمعتمد عندهم أن الإلهام من غير النبي صلّى الله عليه وسلم ليس بحجة في الأحكام الشرعية على غير الملهَم، وأما المجتهد الملهم فليس الإلهام في حقه حجة إلا في قضية لايوجد لحكمها دليل متفق عليه، وكأنه الاستحسان المعروف. وهم يتبرؤون من تسميتهم الخوارج أو الخوامس، وكانوا يعرفون بأهل الدعوة، وأهل الاستقامة، وجماعة المسلمين.

– وقد اشتهرت الإباضية بالقول بالمسائل الفقهية التالية:

– 1ً – عدم جواز المسح على الخفين كالشيعة الإمامية.

– 2ً – عدم رفع الأيدي في تكبيرة الإحرام، أما إسبال الأيدي في الصلاة والاقتصار على تسليمة واحدة فهم موافقون المذهب المالكي والزيدي.

– 3ً – القول بإفطار من أصبح جنباً في رمضان عملاً بحديث أبي هريرة ورأي بعض التابعين.

– 4ً – تحريم ذبائح أهل الكتاب الذين لايعطون الجزية أو الحربيين غير المعاهدين، والإمامية لايجيزون أكل هذه الذبائح مطلقاً.

– 5ً – تحريم نكاح الصبي والصبية في قول جابر بن زيد، والعمل في المذهب بخلافه.

خيراً الوصيةُ للوالدين والأقربين} [البقرة:180/ 2] ونسخت الوصية للوالدين بآية المواريث وبحديث (لاوصية لوارث).

– 8ً – المكاتب حر من وقت الكتابة، والمدبَّر حر بعد موت المدبِّر كبقية المذاهب، أو بعد انقضاء الأجل الذي أجل إليه، ولايجوز بيعه إلا في الدَّيْن عند أكثر علماء المذهب.

– 9ً – تحريم التبغ على أنه من الخبائث.

– ومن كتبهم في العقيدة: (مشارق الأنوار) للشيخ نور الدين السالمي، وفي الأصول (طلعة الشمس) للشيخ نور الدين السالمي، وفي الفقه (شرح النيل وشفاء العليل) للشيخ محمد بن يوسف بن أطَّفَيِّش، (17) جزءا، و (قاموس الشريعة) للسعدي، (90 جزءاً)، و (المصنَّف) للشيخ أحمد بن عبد الله الكندي، (42 جزءًا)، و «منهج الطالبين» للشيخ الشقعبي، (20 جزءاً)، و «الإيضاح» للشيخ الشمَّاخي، (8 أجزاء)، و (جوهر النظام) للشيخ السالمي، و (الجامع) لابن بركة في جزأين.

– ومايزال مذهبهم قائماً في سلطنة عمان وفي شرق أفريقيا والجزائر وليبيا وتونس.

– وهم في العقائد يقولون بتخليد أصحاب الكبائر في النار إن لم يتوبوا، وبالولاية والبراءة (ولاية الطائع والبراءة من العاصي) وبجواز التَّقيَّة في الأقوال لا في الأفعال، وبأن صفات الله تعالى هي عين الذات، أي أن صفاته قائمة بذاته

وليست مغايرة له، فهم يقصدون تعظيم الله وتنزيهه، كما أنهم كالشيعة بنفيهم رؤية الله عز وجل في الآخرة يقصدون التعظيم والتنزيه، ولكنهم لايقولون كالمعتزلة بالتحسين والتقبيح العقليين، ولا بوجوب فعل الصلاح والأصلح على الله تعالى

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 – 8 ‏، جلد 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی – اگست 2013ء ۔صفحہ نمبر: 10

فرقہٴ اباضیہ ـ اپنے عقائد وافکار کے آئینے میں

از: مولانا اشرف عباس قاسمی‏، استاذ دارالعلوم دیوبند

پس منظر:

          امسال رمضان شریف کا بیشتر حصہ تنزانیا (مشرقی افریقہ) کے دارالسلطنت دارالسلام میں گزرانے کا موقع ملا، دارالسلام میں مختلف شیعی گروہوں کے علاوہ فرقہٴ اباضیہ بھی اپنی ایک خاص شناخت اور طاقت رکھتا ہے، اس فرقے کی پرشِکُوہ مسجدیں کسی بھی زائر کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ایشیائی مسلمان، اباضیہ کو بھی اہل السنة والجماعة میں شمار کرتے ہوئے بلاجھجک ان کی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں، اس صورتِ حال سے بے چین ہوکر میرے بعض فکرمند میزبانوں نے مجھ سے فرقہٴ اباضیہ کی اصلیت اور معتقدات کے واضح کرنے کا مطالبہ کیا، میں نے ان سے وعدہ کرلیا تھا،یہ تحریر ان کے وعدہ کی تکمیل ہے۔

فرقہٴ اباضیہ تعارف وانتساب:

          اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنے اور مسلمانوں کو ابتداہی سے غیرمعمولی نقصانات پہنچانے میں روافض کے ساتھ خوارج کا اہم کردار رہا ہے، یہ صحیح ہے کہ مرورِزمانہ کے ساتھ خوارج کی ساکھ کمزور ہوتی گئی اور وہ رفتہ رفتہ ناپید ہوتے گئے؛ تاہم بعض علاقے اب تک خارجی اثرات ومعتقدات کے زیراثر ہیں اورانھی خوارج کی باقیات میں سے فرقہٴ اباضیہ بھی ہے۔

          مذہب اباضیہ کو عام طور سے عبداللہ بن اباض تمیمی کی طرف منسوب کیاجاتاہے، جن کی وفات ۸۰ھ میں ہوئی ہے؛ جبکہ علمی اور فکری اعتبار سے اس کا سرچشمہ ابوالشعثاء کو قرار دیا جاتا ہے۔ ابوالشعثاء جابر بن زید متوفی ۹۳ھ محدث، فقیہہ اور ابن عباس کے شاگرد ہیں، دیگر مذاہب کی طرح اباضیہ کے پاس بھی مسائل کے استنباط کے خاص مناہج اور فقہی اصول وضوابط ہیں۔ فرقہٴ اباضیہ کو ”اهلِ دعوت، اهل استقامت اور جماعة المسلمین“ کے ناموں سے بھی جانا جاتا رہا ہے۔ (دیکھیے مقدمة الفقه الاسلامي وأدلته ۱/۵۶)

اباضی علماء اور مستند کتابیں:

          مشہور اباضی علماء میں جنھیں مرجعیت حاصل رہی ہے۔ ابراہیم اَطّفش الجزائری اور ابراہیم بن عمر بیوض الجزائری ہیں۔ یہ دونوں اباضیت میں متشدد نہیں تھے، حتیٰ کہ آخرالذکر کے بارے میں بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مرنے سے پہلے انھوں نے اباضیت سے توبہ کرکے مالکی مسلک کو اختیار کرلیاتھا؛ اگرچہ اباضیین اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ اباضیین کے یہاں معتمد اور مستند کتابوں میں، عقیدہ میں نورالدین سالمی کی مشارق الانوار، اصول فقہ میں طلعة الشمس، فقہ میں محمداظفیش کی شرح النبیل وشفاء العلیل۔ سعدی کی قاموس الشریعة اوراحمد کندی کی المصنف جیسی کتابیں ہیں؛ جبکہ حدیث میں مسند الربیع بن حبیب کو اتنی زیادہ اہمیت دے رکھی ہے کہ وہ اسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا مصداق اور صحیح بخاری وصحیح مسلم سے فائق قرار دیتے ہیں۔

عمان، اباضیہ کا مرکز:

          اس وقت اباضیین کی بڑی تعداد الجزائر، تونس، لیبیا، مشرقی افریقہ اور سلطنت عمان وغیرہ میں آباد ہے۔ عمان کو ان کی مذہبی اور فکری سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق وہاں کے پچھتّر فیصد باشندے اباضی ہیں۔ شیخ ابوزہرہ مصری فرماتے ہیں: یہ فرقہ خارجیوں میں معتدل اور فکر ورائے میں عام مسلمانوں سے زیادہ قریب، غلو اور انتہاپسندی سے الگ تھا، نیز وہ لکھتے ہیں: یہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام کے بعض اطراف میں یہ اب تک موجود ہیں۔“ (تاریخ المذاہب الاسلامیہ مترجم: ۱۰۷)

          یاقوت حموی نے بھی اپنے دور کے باشندگان عمان کی اکثریت کو اباضی قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں:

 ”أکثر أهلها في أیامنا خوارج اباضیة، لیس بها من غیر هذا المذهب الا طاری غریب، وهم لا یخفون ذٰلک“ (معجم البلدان ۴/۱۵۰)

          ترجمہ:ہمارے زمانے میں عمان کے اکثر باشندے اباضی خوارج ہیں، اور سوائے کسی اجنبی نووارد شخص کے اباضیہ کے علاوہ کو ماننے والا کوئی شخص نہیں ہے، اور اباضیین اپنے عقائد کو چھپاتے بھی نہیں ہیں۔

عقائد میں اباضیہ کا اہل السنة والجماعة سے اختلاف

          چند اہم عقائد جن میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنة والجماعة سے مختلف ہے، درج ذیل ہیں:

          ۱- اباضیین صفاتِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں،اور صفات کو عین ذات باری تعالیٰ قرار دیتے ہیں؛ جبکہ اہل السنة والجماعة، ذات باری تعالیٰ کے لیے صفات کو ثابت جانتے ہیں۔

          ۲- آیات ربانیہ اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آخرت میں اہل ایمان کو اللہ پاک کا دیدار نصیب ہوگا؛ چنانچہ سورئہ یونس کی آیت کریمہ ”للذین أحسنوا الحسنٰی وزیادة“ (یونس:۶) ”جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی“ میں زیادہ کی تفسیر خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدار الٰہی سے کی ہے؛ چنانچہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت پاک ”للذین أحسنوا ․․․ کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا، اے جنتیو! اللہ پاک نے تم سے ایک وعدہ کررکھا ہے، اللہ اپنے اس وعدے کو پورا کرنا چاہتا ہے، تو جنتی جواب دیں گے، وہ کیا ہے؟ کیا اللہ پاک ہمارے ترازو کو بھاری، ہمارے چہروں کو روشن اور ہمیں دوزخ سے دور کرکے جنت میں داخل نہیں کردیاہے؟ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اس کے بعد پردہ ہٹادیا جائے گا اور جنتی اللہ پاک کا دیدار کریں گے، تو خدا کی قسم اللہ کی عطا کردہ ساری نعمتوں میں اللہ کا دیدار سب سے پسندیدہ اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے والا ہوگا“۔ یہ حدیث مسلم شریف، ترمذی شریف سمیت کئی کتب حدیث میں موجود ہے، اور اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات ہیں، لہٰذا قرآنی آیات اور احادیث وآثار کے پیش نظر اہل السنة کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آخرت میں اللہ پاک کا دیدار ہوگا؛ لیکن اباضیین اس کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

          ۳- اباضیین، قرآن کریم کے مخلوق اور حادث ہونے کے قائل ہیں، جو معتزلہ کا مشہور عقیدہ ہے۔ اسی کے انکار کی وجہ سے معتزلہ کی ایماء پر عباسی خلفاء نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کوڑے برسائے اور سخت اذیتیں دیں؛ لیکن حضرت امام کے پائے استقامت میں ذرا جنبش نہیں ہوئی اور وہ اہل السنة والجماعة کے اس عقیدے پر جمے رہے کہ قرآنِ مقدس مخلوق نہیں، جو حادث ہو، یہ اللہ پاک کا کلام ہے جو اس کی صفات میں سے ہے۔

          ۴-اباضیین کا عقیدہ ہے کہ جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے دنیا سے جائے گا؛ اگرچہ وہ کلمہ گو اور پابند نماز وغیرہ ہو، پھر بھی اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔ اسے کبھی جنت نصیب نہیں ہوگی؛ جبکہ اہل السنة والجماعة کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مرتکب کبیرہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ اگر ایمان پر اس کا خاتمہ ہوا ہے تو اسے بھی اللہ پاک جنت کا داخلہ نصیب کریں گے، یا تو اللہ پاک اس کا گناہ معاف کردیں یا گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اللہ پاک اس کے حق میں جنت کا فیصلہ فرمادیں؛ چنانچہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

          ”اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس میں کوئلہ بن جائیں گے، پھر اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی، تو انھیں آگ سے نکال کر جنت کے دروازوں پر ڈال دیا جائے گا، تو جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے جس کے نتیجے میں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح سیلاب کے بہاؤ میں گھاس اگ جاتی ہے“۔

          ۵- جنھوں نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے، اباضیین کے نزدیک وہ مستحق شفاعت نہیں ہیں، جبکہ اہل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے کہ ان کے حق میں بھی شفاعت ہوگی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لیخرجن قوم من امتی من النار بشفاعتي یُسمّون الجہنمیین“

          ترجمہ: میری سفارش کی وجہ سے میری امت کے ایک گروہ کو جن کا لقب جہنمی پڑجائے گا، جہنم سے نکالا جائے گا۔

          ۶- قرآن وحدیث میں آخرت کے متعلق کئی چیزوں کا تذکرہ ہے، مثلاً میزانِ عدل قائم کیا جائے گا، پل صراط سے گزرنا ہوگا؛ لیکن اباضیین اس طرح کی چیزوں میں تاویل کرتے ہیں اور احادیث میں ان چیزوں کی جو تفصیلات ہیں انھیں نہیں مانتے ہیں؛ جبکہ اہل السنة والجماعة اسی طرح ان کو مانتے ہیں جس طرح رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔

          ۷- اہل السنة والجماعة کا اتفاق ہے کہ قرآنِ مقدس کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح کتاب بخاری شریف ہے،اس کے بعد مسلم شریف وغیرہ دیگر کتب احادیث کا مقام ہے؛ لیکن اباضیین اس تصور کو خارج کردیتے ہیں، ان کے نزدیک بخاری ومسلم سے بڑھ کر مسند ربیع بن صہیب ہے۔ قرآن مجید کے بعد سب سے اہم کتاب وہ اسی مسند کو قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اباضیین نے بہت سے اجماعی مسائل کا بھی انکار کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: موسوعة الأدیان والمذاہب المعاصرة ۱/۶۲)

چند متفقہ فقہی مسائل میں اباضیہ کا شذوذ:

          جب اصول وعقائد میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنة والجماعة کے نقطئہ نظر سے مختلف ہے، تو فروع وجزئیات فقہیہ میں اختلاف تو لابدی اور فطری ہے۔ ہم یہاں چند اہم مسائل درج کررہے ہیں، جن میں اباضیین نے اہل السنة والجماعة کے اجتماعی موقف سے شذوذ کیاہے۔

          ۱-شیعوں کی طرح اباضیین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ خفین پر مسح کرنا جائز نہیں؛ حالاں کہ چمڑے کے موزے پر مسح کا جواز اہل السنة کا متفقہ مسئلہ ہے اورامام ابوحنیفہ نے خفین پر مسح کے جواز کو اہل السنة والجماعة کی علامتوں میں شمار کیا ہے۔

          ۲- نماز کے آغاز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کے قائل نہیں، اور پوری نماز ہاتھ چھوڑ کر ہی ادا کرتے ہیں۔

          ۳- اگر رمضان میں حالت جنابت میں صبح ہوئی تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔

          ۴- جو جزیہ نہیں دیتے، مثلاً موجودہ اہل کتاب، ان کا ذبیحہ حرام ہے۔

          ۵- ورثہ کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کے لیے وصیت واجب ہے۔

          ۶- مکاتب، عقد کتابت کے وقت سے ہی آزاد ہے۔

اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم:

          اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا بھی وہی حکم ہوگا،جو حکم خوارج کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے۔ یعنی اگرچہ اہل السنة والجماعة انھیں کافر نہیں قرار دیتے؛ لیکن ان کے عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ شنیعہ کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے ضرور منع کرتے ہیں، عرب علماء، چوں کہ اباضیین کے احوال سے زیادہ واقف ہیں؛اس لیے ہم اس سلسلے میں زیادہ تر انھیں کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔

          مشہور عرب عالم ابن جبرین فرماتے ہیں: ”ثم هم مع ذٰلک یکفرون أهل السنة ویمنعون خلفنا، فلذٰلک یقول: لا یصلی خلف هذه الطائفة“

          ترجمہ:اباضیین اپنے غلط افکار کے ساتھ اہل السنة کو کافر قرار دیتے ہیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے ہیں؛ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس فرقے کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی۔

          شیخ محمد بن ابراہیم نے تو اباضیہ کے پیچھے نہ صرف نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے؛ بلکہ واضح طور پر کہا ہے کہ فرقہٴ اباضیہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی گواہی بھی شرعاً معتبر نہیں ہوگی۔ (دیکھیے: فتاویٰ الشیخ محمد بن ابراہیم ۱۳/۳۰)

          سعودی عرب کے مفتیان کرام کی جماعت نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اباضیین کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی؛ کیوں کہ اباضیہ فرق ضالہ میں سے ہے۔ (دیکھیے: فتویٰ اللجنة الدائمة رقم: ۶۹۳۵)

          ان کے علاوہ شیخ سلمان العودة اور شیخ سلمان الغصن بھی اباضیہ کے پیچھے نماز درست نہیں قرار دیتے۔

          حضرت مولانا مفتی رشیداحمد صاحب لدھیانوی نے بھی ایک سوال کے جواب میں تحریر کیا ہے: ”عبداللہ بن اباض کی جانب منسوب جو فرقہٴ اباضیہ ہے اورجو خوارج ہی کی شاخ ہے، ان کے عقائد کتابوں میں ملتے ہیں، اگر یہ فرقہ بعینہ وہی ہے یا ان کے عقائد ان کے مطابق ہیں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؛ اس لیے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے“۔ (احسن الفتاویٰ:۱/۱۹۸)

          مفتی شعیب اللہ خاں مفتاحی مدظلہ فرماتے ہیں:

          ”عمان کے اباضیہ دراصل خوارج ہیں؛ لہٰذا ان کے پیچھے نماز درست نہ ہوگی، اگرچہ یہ بہ نسبت دیگر فرق خوارج کے معتدل ہیں، تاہم جو بنیادی عقائد خوارج کے ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہیں۔“ (نفائس الفقہ ۴/۴۲۰)

اہل السنة والجماعة کے تئیں اباضیہ کا سخت موقف:

          یہاں اس امر کا بھی اظہار مناسب ہے کہ خوارج کی طرح، اباضیین بھی اپنے علاوہ اہل السنة والجماعة اور عامة المسلمین کے حوالے سے انتہا پسندانہ نظریات رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں ان کے علاوہ تمام مسلمان کافر ہیں۔ اورجنت میں وہی داخل ہوگا جو اباضی عقیدے پر مرا ہو۔ اباضیین کے علاوہ جتنے مسلمان ہیں سب کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔

          چنانچہ مشہور اباضی عالم ابوبکر بن عبداللہ الکندی نے لکھا ہے:

          ”ونحن نَشْهدُ لمن مات من هوٴلاء مصرا علی خلاف ما دانت بها الاباضیة بالخزی والصغار والخلود فی النار“ (الجوهر المقتصر ص ۱۲۱)

          ترجمہ: اور ان مسلمانوں میں سے جو اباضیہ کے عقیدے سے ہٹ کر کسی اور عقیدے پر مرے ہم اس کے لیے رسوائی، ذلت اور ہمیشہ کے لیے جہنم کی شہادت دیتے ہیں۔

          ایک اور اباضی عالم مہنا بن خلفان نے اباضیہ کے معتقدات وافکار ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:  ”وان مات علی خلافه فلیس له فی الآخرة الا النار وبئس المصیر“ (لباب الآثار ۱/۲۷۸)

          ترجمہ:اوراگر کوئی اس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مرے تو آخرت میں اس کے لیے صرف جہنم ہے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔

          درج بالا تصریحات سے واضح ہے کہ فرقہٴ اباضیہ اپنے معتقدات کی وجہ سے اہل السنة والجماعة سے خارج ہے اور یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو دیگر مسلمانوں کو جہنمی خیال کرتا ہے؛ اس لیے اس فرقے کے زہریلے اثرات سے اپنے معاشرے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اوراس کے پیچھے نماز پڑھنے سے بالکلیہ احتراز کرنا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رکھیں! (آمین)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – دار الفكر-بيروت (1/ 559)

(ويكره) تنزيها (إمامة عبد) ولو معتقا قهستاني. عن الخلاصة، ولعله لما قدمناه من تقدم الحر الأصلي، إذ الكراهة تنزيهية فتنبه (وأعرابي)… (ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم، إلا الخطابية ومنا من كفرهم (وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها) كقوله إن الله تعالى جسم كالأجسام وإنكاره صحبة الصديق (فلا يصح الاقتداء به أصلا) فليحفظ

•———————————•

[رد المحتار]

(قوله ويكره تنزيها إلخ) لقوله في الأصل: إمامة غيرهم أحب إلي بحر عن المجتبى والمعراج، ثم قال: فيكره لهم التقدم؛ ويكره الاقتداء بهم تنزيها؛ فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهو أفضل وإلا فالاقتداء أولى من الانفراد … (قوله حتى الخوارج) أراد بهم من خرج عن معتقد أهل الحق لا خصوص الفرقة الذين خرجوا على الإمام علي – رضي الله تعالى عنه – وكفروه، فيشمل المعتزلة والشيعة وغيرهم  (قوله وسب الرسول) هكذا في غالب النسخ، ورأيته كذلك في الخزائن بخط الشارح، وفيه أن ساب الرسول – صلى الله عليه وسلم – كافر قطعا، فالصواب وسب أصحاب الرسول، وقيدهم المحشي بغير الشيخين لما سيأتي في باب المرتد أن سابهما أو أحدهما كافر.

أقول: ما سيأتي محمول على سبهما بلا شبهة، لما صرح به في شرح المنية من أن سابهما أو منكر خلافتهما إذا بناه على شبهة له لا يكفر وإن كان قوله كفرا في حد ذاته لأنهم ينكرون حجية الإجماع بإتهامهم الصحابة، فكان شبهة في الجملة وإن كانت باطلة، بخلاف من ادعى أن عليا إله وأن جبريل غلط لأنه ليس عن شبهة واستفراغ وسع في الاجتهاد، بل محض هوى، وتمامه فيه فراجعه: وقد أوضحت هذا المقام في كتابي: [تنبيه الولاة والحكام على أحكام شاتم خير الأنام أو أحد أصحابه الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام] (قوله لكونه عن تأويل إلخ) علة لقوله لا يكفر بها. قال المحقق ابن الهمام في أواخر التحرير: وجهل المبتدع كالمعتزلة مانعي ثبوت الصفات الزائدة وعذاب القبر والشفاعة وخروج مرتكب الكبيرة والرؤية لا يصلح عذرا، لوضوح الأدلة من الكتاب والسنة الصحيحة، لكن لا يكفر، إذ تمسكه بالقرآن أو الحديث أو العقل، وللنهي عن تكفير أهل القبلة والإجماع على قبول شهادتهم ولا شهادة لكافر على مسلم، وعدمه في الخطابية ليس لكفرهم: أي بل لتدينهم شهادة الزور لمن كان على رأيهم أو حلف أنه محق.

وأورد أن استباحة المعصية كفر. وأجيب إذا كان عن مكابرة وعدم دليل، بخلاف ما عن دليل شرعي، والمبتدع مخطئ في تمسكه لا مكابر، والله أعلم بسرائر عباده. اهـ. (قوله ومنا من كفرهم) أي منا معشر أهل السنة والجماعة من كفر الخوارج: أي أصحاب البدع؛ أو المراد منا معشر الحنفية. وأفاد أن المعتمد عندنا خلافه، فقد نقل في البحر عن الخلاصة فروعا تدل على كفر بعضهم. ثم قال: والحاصل أن المذهب عدم تكفير أحد من المخالفين فيما ليس من الأصول المعلومة من الدين ضرورة إلخ فافهم

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 262)

[رد المحتار]

وحكم الخوارج عند جمهور الفقهاء والمحدثين حكم البغاة. وذهب بعض المحدثين إلى كفرهم. قال ابن المنذر: ولا أعلم أحدا وافق أهل الحديث على تكفيرهم، وهذا يقتضي نقل إجماع الفقهاء. مطلب في عدم تكفير الخوارج وأهل البدع

وقد ذكر في المحيط أن بعض الفقهاء لا يكفر أحدا من أهل البدع. وبعضهم يكفر من خالف منهم ببدعته دليلا قطعيا ونسبه إلى أكثر أهل السنة والنقل الأول أثبت نعم يقع في كلام أهل مذهب تكفير كثير، لكن ليس من كلام الفقهاء الذين هم المجتهدون بل من غيرهم. مطلب لا عبرة بغير الفقهاء يعني المجتهدين

ولا عبرة بغير الفقهاء، والمنقول عن المجتهدين ما ذكرنا وابن المنذر أعرف بنقل مذاهب المجتهدين اهـ لكن صرح في كتابه المسايرة بالاتفاق على تكفير المخالف فيما كان من أصول الدين وضرورياته: كالقول بقدم العالم، ونفي حشر الأجساد، ونفي العلم بالجزئيات، وأن الخلاف في غيره كنفي مبادئ الصفات، ونفي عموم الإرادة، والقول بخلق القرآن إلخ. وكذا قال في شرح منية المصلي: إن ساب الشيخين ومنكر خلافتهما ممن بناه على شبهة له لا يكفر، بخلاف من ادعى أن عليا إله وأن جبريل غلط؛ لأن ذلك ليس عن شبهة واستفراغ وسع في الاجتهاد بل محض هوى اهـ وتمامه فيه.

قلت: وكذا يكفر قاذف عائشة ومنكر صحبة أبيها؛ لأن ذلك تكذيب صريح القرآن كما مر في الباب السابق (قوله: بخلاف المستحل بلا تأويل) أي من يستحل دماء المسلمين وأموالهم ونحو ذلك مما كان قطعي التحريم ولم يبنه على دليل كما بناه الخوارج كما مر؛ لأنه إذا بناه على تأويل دليل من كتاب أو سنة كان في زعمه إتباع الشرع لا معارضته ومنابذته، بخلاف غيره

أحسن الفتاوی (7/402) – سعید

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: