Home » Hanafi Fiqh » DaruliftaaZambia.com » Irregular menstrual cycle in Iddah

Irregular menstrual cycle in Iddah

Answered as per Hanafi Fiqh by DaruliftaaZambia.com

Question

What is the iddah for a divorced woman who does not have a regular haidh cycle but has not reached menopausal age?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

An Iddah of a divorced woman who has not reached the age of menopause and still experiences Haidh – whether regular or irregular – will only terminate when she experiences three menstrual cycles, regardless of whether she experiences them over a period of three months or more.

However, if she does not experience her menstrual cycle for 1 year from the beginning of her Iddah, she should seek medical assistance in inducing her Haidh. If this too does not help, and waiting longer for Haidh becomes unbearable, she may refer to a Mufti of the Maliki school of Jurisprudence or a local group of reliable Ulama. They will issue a ruling of the termination of her Iddah as according to the preferred view of the Maliki School of thought. The latter ruling in purely based on Dharoorah (necessity). [i]

 

And Allah Ta’āla Knows Best

Checked and Approved by

Mufti Nabeel Valli.

Darul Iftaa Mahmudiyyah

Lusaka, Zambia

www.daruliftaazambia.com

[i]  الفتاوى الهندية 1/527 مكتبة رشيدية

ولو رأت ثلاثة دما ثم انقطع فعدتها بالحيض وان طال الى أن تأس كذا في العتابية

رد المحتار على الدر المختار 5/185 دار الكتب العلمية

(ولم تحض) الشابة الممتدة بالطهر بأن حاضت ثم امتد طهرها فتعتد بالحيض الى أن تبلغ سن الإياس …. قوله (بأن حاضت) أي ثلاثة أيام مثلا… قوله (ثم امتد طهرها) أي سنة أو أكثر ….الخ

البحر الرائق شرح كنز الدقائق 4/220 دار الكتب العلمية

وَخَرَجَ بِقَوْلِهِ إنْ لَمْ تَحِضْ الشَّابَّةُ الْمُمْتَدُّ طُهْرُهَا فَلَا تَعْتَدُّ بِالْأَشْهُرِ وَصُورَتُهَا إذَا رَأَتْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَانْقَطَعَ وَمَضَى سَنَةٌ أَوْ أَكْثَرُ ثُمَّ طَلُقَتْ فَعِدَّتُهَا بِالْحَيْضِ إلَى أَنْ تَبْلُغَ إلَى حَدِّ الْإِيَاسِ وَهُوَ خَمْسٌ وَخَمْسُونَ سَنَةً فِي الْمُخْتَارِ كَذَا فِي الْبَزَّازِيَّةِ وَمِنْ الْغَرِيبِ مَا فِي الْبَزَّازِيَّةِ قَالَ الْعَلَّامَةُ وَالْفَتْوَى فِي زَمَانِنَا عَلَى قَوْلِ مَالِكٍ فِي عِدَّةِ الْآيِسَةِ اهـ.

وَلَوْ قَضَى قَاضٍ بِانْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُمْتَدِّ طُهْرُهَا بَعْدَ مُضِيِّ تِسْعَةِ أَشْهُرٍ نَفَذَ كَمَا فِي جَامِعِ الْفُصُولَيْنِ وَنُقِلَ فِي الْمَجْمَعِ أَنَّ مَالِكًا يَقُولُ إنَّ عِدَّتَهَا تَنْقَضِي بِمُضِيِّ حَوْلٍ وَفِي شَرْحِ الْمَنْظُومَةِ أَنَّ عِدَّةَ الْمُمْتَدِّ طُهْرُهَا تَنْقَضِي بِتِسْعَةِ أَشْهُرٍ كَمَا فِي الذَّخِيرَةِ مَعْزِيًّا إلَى حَيْضِ مِنْهَاجِ الشَّرِيعَةِ، وَنُقِلَ مِثْلُهُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ وَهَذِهِ الْمَسْأَلَةُ يَجِبُ حِفْظُهَا؛ لِأَنَّهَا كَثِيرَةُ الْوُقُوعِ وَذَكَرَ الزَّاهِدِيُّ وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا يُفْتُونَ بِقَوْلِ مَالِكٍ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ لِلضَّرُورَةِ خُصُوصًا الْإِمَامُ وَالِدِي اهـ.

فتاوى رحيمیہ  8/415  )دار الاشاعت(

 صورت مسئولہ میں حنیفہ کے نزدیک عدت بالحیض گذارنا لازم ہے)

اگر اس قدر انتظار عدت گذارنے کے لئے نا قابل برداشت ہوتو اجزائے حیض کے لئے علاج کرائے اگر ناکامی ہو اور گناہ میں مبتلا ہونے کا قوی خطرہ ہو تو مالکی المذہب مفتی سے عدت بالا شہر (۹/ماہ یا ایک سال کی مدت) کا فتوی حاصل کرے یا شرعی پنچایت سے فیصلہ کرائے اور اس کے مطابق عمل کرے ۔فقط ۔

حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اﷲ مرقدہ‘ کا فتویٰ:۔

)درمختار و رد المختار کے باب العدۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک تو مدت ایاس تک انتظارحیض کا ضروری ہے اور مالکیہ کے نزدیک نو مہینے اور بقول معتمد ایک سال وقت طلاق سے عدت ہے اور ضرورت کے وقت اس قول پر عمل جائز ہے اھ۔ احقر کہتا ہے کہ اس میں یہ امو قابل لحاظ ہوں گے ۔ اول:۔ اس کا علاج کرائے ۔ دوم:۔ اس قول پر عمل کرنے کے لئے قضاء قاضی کی حاجت ہوگی اور حاکم مسلم گو منجانب کا فر بادشاہ کے ہو قاضی شرعی ہے پس سرکار میں ایک درخواست اس کی پیش کی جائے کہ کسی مسلمان حاکم کو اس مسئلہ میں حکم کرنے کا اختیار دے دیاجائے پھر وہ حاکم مسلم اس فتوے کے موافق اس عورت کو عدت گذار کر نکاح ثانی کر لینے کی اجازت دے دے ۔ اس طرح عمل کیا جائے ۔سوم:۔اگر اس قول کے موافق عدت شروع کی اور قبل ختم ہونے ایک سال کے اتفاقاً حیض جاری ہوگیا تو پھر عدت حیض سے کی جائے گی ۔ واﷲ اعلم

مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ صاحب قدس سرہ ‘ کا فتویٰ:۔

یہ عورت ممتدۃ الطہرہے ۔حنفیہ کے نزدیک تو ا س کی عدت حیض سے ہی پوری ہوگی تاکہ سن ایاس تک پہنچے ۔ لیکن امام مالک رحمہ اﷲ کے نزدیک ایک روایت میں نو مہینے اور دوسری روایت میں سال بھر تک حیض نہ آنے کی صورت میں انقضائے عدت کا حکم دے دیا جاتا ہے ۔ تو اگر کوئی سخت ضرورت لاحق ہو اور نکاح ثانی نہ ہونے کی صورت میں قوی خطرہ وقوع فی الحرام یا کسی ایسے ہی مفسدہ کا ہو تو کسی مالکی سے فتویٰ لے کر اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔واﷲ اعلم۔ (مولانا مفتی)کفایت اﷲ رحمہ اﷲ ۔(کفایت المفتی ج۶ ص ۳۸۳ ششم ۔ کتاب الطلاق)  

This answer was collected from Daruliftaazambia.com, which serves as a gateway to Darul Iftaa Mahmudiyyah – Lusaka, Zambia.

Read answers with similar topics: