Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Can I work as an I.T engineer in an Investment Bank?

Can I work as an I.T engineer in an Investment Bank?

Answered as per Hanafi Fiqh by Askimam.org

l salam alaykom I have been working as IT engineer in a Corporate and Investment Banking in France for more than 4 years. My work consists in integrating new applications (mainly websites for pre-trading /trading online for Sales, Traders, Market Makers….), monitoring of the computer system, troubleshooting IT issues… Is my work Halal or Haram as an IT engineer in the investment Bank ? As I am part of the IT department I am helping others on the sin even if my job is not it self Haram, Am I not? Thank you very much for your answer and the details that will provide Sami from France

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

Brother Sami,

We observe you are conscious of staying away from Haraam. That stems from your consciousness of Imaan. Your attitude is praiseworthy.

There are two issues in your query:

(1) Integrating new applications

(2) Troubleshooting

In principle, if the software has a dual purpose and can be used for permissible activities, then it is permissible to develop the software and market such a software for its permissible use. 

Thereafter, if an individual or company/Bank uses the software for any impermissible activity, the responsibility of the same will be solely upon the user. [1]

However, if the software comprises of Haraam entities, for example: interest or gambling, then it will not be permissible to design such software for the Bank. As this would entail assisting in sin.[2]

Allah Ta’ala says:

وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ 

Translation: “And do not assist one another in sin”

(Surah Al-Maaidha, Aayah 2)

And Allah Ta’āla Knows Best

Muhammad I.V Patel

Student Darul Iftaa
Lusaka, Zambia

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

__________

 


[1] الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 391) 

(قوله وجاز تعمير كنيسة) قال في الخانية: ولو آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به لأنه لا معصية في عين العمل

 

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (5/ 362)

ولو آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها فلا بأس به؛ إذ ليس في نفس العمل معصية

 

فتاوی عثمانی(3/396) مکتبه دار العلوم کراچی    

بینک کی ملازمت کا تفصیلی حکم

    در  اصل بینک کی ملازمت نا جائز ہونےکی دو وجہیں ہو سکتی ہیں،ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہے کہ ملازمت میں سود وغیرہ کے نا جائز معاملات میں اعانت ہے،دوسرے یہ کہ تنخاہ حرام مال سے ملنے کا احتمال ہےان میں سے پہلی وجہیں یعنی حرام کاموں میں مدد  کا جہاں  تک تعلق ہے،شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں،ہر درجہ حرام نہیں،بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہےجو براہ راست  حرام کام میں ہوں،مثلا سودی معاملہ کرنا،سود کا معاملہ لکھنا،سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ-لیکن اگر براہ راست سودی معاملہ میں انسان کو ملوث نہ ہونا  پڑے، بلکہ اس کام کی نوعیت ایسی ہو جیسے  ڈرائیور،چپراسی،یا جائز ریسرچ وغیرہ تو اس میں چونکہ براہ راست مدد نہیں ہے،اس لئے اس کی گنجا ئش ہے-

جہاں تک حرام  مال سے تنخاہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے مین شریعت کا اصول ہے کہ اگرایک مال جلال وھرام سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہو تو اس سے تنخواہ یا ہدیہ لینا ناجائز  نہیں، لیکن اگر حرام مال کم ہو تو جائز ہے-بینک کا  صورت حال  یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے،1-اصل سرمایہ2-ڈپازیٹرز کے پیسے3-سود اور حرام کاموں کی آمدنی،4-جائز خدمات کی آمدنی،اس سارے مجموعے میں صرف نمبر3 حرام ہے،باقی کو حرام نہیں کہا جا سکتا، اور چونکہ ہر بینک میں نمبر 1 اور نمبر دو کی کثرت ہوتی ہے،اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجموعہ غالب ہے،لہذاکسی جائز کام کی تنخاہاس سے وصول کی جاسکتی ہے-

یہ بنیاد ہےجس کی بناٰء پرعلماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے، البتہ احتیاط اس سے بھی اجتناب کیا جائے-

 

کتاب النوازل جلد12  صفحة 290

ویب سایٹ پر اشتہار کلک کرنے کی اجرت لینا:

اگر شرط کے مطابق یہ معاملہ نا جائز باتوں سے متعلق ہو…..تو گناہ پر تعاون کی وجہ سے یہ عمل جائز نہ ہو گا

 

کتاب الفتاوی  جلد5  صفحة  410زمزم پبلشرز

بینک کي ملازمت اس لۓ ناجائز ہے کہ اکثر اوقات یہ سودي لین دین میں تعاون ہوتا ہے اور سودي معاملات میں تعاون بھي جائز نہيں جب کہ گورنمنٹ کي دوسري ملازمتوں میں ملازمت کرنے والوں کا سود لینے اور دینے والوں سے کوئي تعلق  نہیں ہوتا اس لۓ بینک کي ایسي ملازمت جس میں سودي کاروبار کے لکھنے یا لینے اور دینے میں تعاون ہوتا ہو جائز نہیں ہے اور دوسري سرکاري ملازمتیں جن میں براہ راست کسي حرام کا ارتکاب نہ ہوتا ہو جائز ہیيں

 

[2] الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 360) 

لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز وتمامه في شرح الوهبانية

 

المبسوط للسرخسي (16/ 38)

وَالِاسْتِئْجَارُ عَلَى الْمَعْصِيَةِ لَا تَجُوزُ

 

الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 238)

قال: “ولا يجوز الاستئجار على الغناء والنوح، وكذا سائر الملاهي”؛ لأنه استئجار على المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد

 

کتاب النو ازل جلد12  صفحہ290

ویب سایٹ پر اشتہار کلک کرنے کی اجرت لینا:

اگر شرط کے مطابق یہ معاملہ نا جائز باتوں سے متعلق ہو…..تو گناہ پر تعاون کی وجہ سے یہ عمل جائز نہ ہو گا

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: