Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » Why is car insurance halal even though in principle (Ive heard) it shouldn’t be halal?

Why is car insurance halal even though in principle (Ive heard) it shouldn’t be halal?

Why is car insurance halal even though in principle (Ive heard) it shouldn’t be halal?

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

If it is a legal requirement  to take out motor car insurance, one will be excused in Shari`ah for taking out the insurance .  

And Allah Ta’āla Knows Best

Hafizurrahman Fatehmahomed

Student Darul Iftaa
Netherlands

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai

 “You must have motor insurance to drive your vehicle on UK roads. Third party insurance is the legal minimum. This means you’re covered if you have an accident causing damage or injury to any other person, vehicle, animal or property. It doesn’t cover any other costs like repair to your own vehicle”  – see –  https://www.gov.uk/vehicle-insurance/overview  

اسلام اور جدید معیشت وتجارت 194- مکتبہ معارف القرآن 

بیمہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو مستقبل میں جو خطرات در پیش ہوتے ہیں کوئی انسان یا ادارہ ضمانت لیتا ہے کہ فلاں قسم کے خطرات کے مالی اثرات کی میں تلافی کردوں گا۔  

(459/4) جواهر الفقه- مکتبہ دار العلوم کراچی

حقیقت کے لحاظ سے بیمہ اور بینک میں فرق نہیں ہے، حقیقت میں اگر فرق ہے تو اتنا کہ اس میں ربوا کے ساتھ “غرر” بھی پایا جاتا ہے۔ بیمہ کرانے والا کمپنی کو روپیہ قرض دیتا ہے اور کمپنی اس رقم سے سودی کاروبار یا تجارت وغیرہ کر کے نفع حاصل کرتی ہے۔ جس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس منفعت کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ بیمہ کرائیں، بینک بھی یہی کرتے ہیں، البتہ اس میں شرح سود مختلف حالات وشرائط کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ بینک میں عموما ایسا نہیں ہوتا۔

(439/5) فتاوی دار العلوم زکریا- زمزم پبلشر

فی زماننا انشورنس کا معاملہ جن بنیادوں پر استوار ہے ان کے تحت شرعی نقطہ نظر اور اصول وقواعد کی روشنی میں کسی بھی قسم کی املاک اور جائداد کو انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اور عدم جواز کا حکم دو ایسے محرمات کے پائے جانے کی وجہ سے ہے جن کی تحریم نصوص قطعیہ کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت اور ظاہر وباہر ہے، چنانچہ وہ دو مفاسد ربا وقمار کا پایہ جانا ہے، جس کی بنا پر یہ معاملہ ناجائز ہے

جمہور کا موقف یہ ہے کہ اس بیمے میں قمار بھی ہے اور ربا بھی گی (اسلام اور جدید معیشت و تجارت،ص 197)    

اس وقت عالم اسلام کے تقریبا تمام مشاہر علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں (اسلام اور جدید معیشت و تجارت،ص 197)

( امداد المفتین، ص707)

(اسلام اور جدید معاشی مسائل، ج7، ص288 )

تامین الاشیاء اس کا طریق کار یہ ہو تا ہے کہ جو شخص کسی سامان کا بیمہ کرانا چاہتا ہے وہ معین شرح سے بیمہ کمپنی کو فیس ادا کرتا رہتا ہے جسے پریمیم کہتے ہیں، اور چونکہ پرمیم اکثر قسط وار ادا کیا جا تا ہے، اس لۓ عربی میں اسے قسط کہتے ہیں اور اس چیز کو حادثہ لاحق ہو نے کی صورت میں کمپنی اس کی مال تلافی کردیتی ہے – اگر اس سامان کو جس کا بیمہ کرایا گیا تہا، کوئ حادثہ پیش نہ آۓ تو بیمہ دار نے جو پریمیم ادا کیا ہے، دہ واپس نہیں ہوتا، البتہ حادثے کی صورت میں بیمے کی رقم بیمہ دار کو مل جاتی ہے جس سے وہ اپنی نقصان کی تلافی کرلیتا ہے – اس میں جہاز کا بیمہ ، گاری کا بیمہ، مکان کا بیمہ وغیرہ داخل ہو گے – 

{يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ } [البقرة: 185]

{وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ } [الحج: 78]

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 64)

الْمَشَقَّةُ تَجْلُبُ التَّيْسِيرَ

السَّادِسُ: الْعُسْرُ وَعُمُومُ الْبَلْوَى الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 64)    أَسْبَابَ التَّخْفِيفِ

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 72)

أَنَّ الْأَمْرَ إذَا ضَاقَ اتَّسَعَ، وَإِذَا اتَّسَعَ ضَاقَ

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

مَا أُبِيحَ لِلضَّرُورَةِ يُقَدَّرُ بِقَدْرِهَا

 (25/7) احسن الفتاوی

جب کہ بیمہ طیب خاطر کی وجہ سے نہ ہو بلکہ حکومت کی طرف سے ہو تو اس صورت میں بیمہ لینا درست ہوگا، لیکن بسورت حادثہ جمع کردہ رقم سے زائد واجب التصدق ہے۔

(309/6) جامع الفتاوی- ادارہ تالیفات اشرفیہ

بیمہ کی جو موجودہ صورتیں رائج ہیں وہ شرعی نقطہ نظرسےصحیح نہیں بلکہ قمار اور جوا کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ اس لئے اپنے اختیار سے بیمہ کرانا جائز نہیں اور اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے بیمہ کرانا پڑے تو اپنی ادا کردہ رقم سے زیادہ وصول کرنا درست نہیں چونکہ بیمہ کا کاروبار درست نہیں اس لئے بیمہ کمپنی میں ملازمت بھی صحیح نہیں۔ 

(312/6) جامع الفتاوی- ادارہ تالیفات اشرفیہ 

بیمہ سود وقمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو اسی پر اکتفائ کیا جائے۔ 

( فتاوی عثمانی، ج3، ص314 )

انشورنس سود اور قمار پر مشتمل ہو نے کی بناء پر بالکل حرام ہے، البتہ جو انشورنس حکومت کی طرف سے لازمی ہو، مثلا موٹر وغیرہ کا بیمہ، اس کو مجبورا کرا سکتے ہیں، مگر جب رقم ملی تو صرف اتنی رقم ملے تو صرف اتنی رقم خود استعمال کر سکتے ہیں جتنی خود داخل کی تہی، اس سے زائد نہیں 

(فتاوی محمودیہ، ج16، ص387، جامعہ فاروقیہ )

بیمہ میں سود بہی ہے اور جوا بہی یہ دونوں جیزیں ممنوع ہیں، بیمہ بہی ممنوع ہے، لیکن لیکن اگر کوئی شخص ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کراۓ جان و  مال کی حفاظت ہی نہ ہو سکتی ہو، یا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانا درست ہے –

(جدید فقہی مسائل، ج4، ص124

انشورنس کی وہ تمام صوتیں جن میں سرکاری قانون کے تحت انشورنس لازمی ہے جائز ہوں گی، جیسے بین ملکی تجارت میں درآمد و برآمد کے لۓ، کہ اس میں انشورنس کرانے والے کی اختیار کو دخل نیہیں –

(نظام الفتاوی، ج2، ص487)

سرکاری طور پر جبرا جو روپیہ حکومت بیمہ کی نام پر کاٹ لیٹی ہے وہ روپیہ اور اس میں جتنا ملا کردے وہ سب بہی ناجائز نہیں ہے، لے سکتے ہیں اور اپنے کام میں خرچ کر سکتے ہیں –

(جدید فقہی مباحث، ج4، ص485 )

معاملات التامين الاسلامي مع تطبيقات عملية لشركات التامين الاسلامي، ص203،  الدكتور صالح العلي – دار النوادر

إذا أصدرت الدولة نظاما يلزم أصحاب السيارات بالتامين من المسؤولية المدنية الناشئة عن الحوادث السيارات، وجب عليهم الالزام بهذا النظام، و دفع أقساط التأمين، و حرم عليهم التهرب منه،

معاملات التامين الاسلامي مع تطبيقات عملية لشركات التامين الاسلامي، ص205،  الدكتور صالح العلي – دار النوادر

أما فيما يتعلق بالحكم الشرعي للإلزام بالتأمين علي حوادث السيارات، فإن من حق ولي الأمر إلزام الناس به، تطبيقا لمبدأ السياسية الشرعية، و استنادا إلي قاعدة: تصرف الامام علي الرعية منوط بالمصلحة، أما عن مشروعية الالتزام بالتأمين الاجباري، فهو واجب علي الأفراد، امتثالا لقول الله تعالي: ( و اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولي الامر منكم (النساء : 59) و الله اعلم – 

معاملات التامين الاسلامي مع تطبيقات عملية لشركات التامين الاسلامي، ص204-205،  الدكتور صالح العلي – دار النوادر

عند تطبيق هذا النظام لايخلو حال المكلف من أحد أمرين:  إما أن يدفع أقساط التأمين، أو يعد مخالفا للنظام مع وقوع العقوبة عليه باعتباره متهربا، و لا ريب أن الأول أهون ضررا، فوجب عليه درء المفاسد الأعلي – 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: