Home » Hanafi Fiqh » AnswersToFatawa » Are we allowed to wear English clothing?

Are we allowed to wear English clothing?

Answered as per Hanafi Fiqh by AnswersToFatawa

Assalam alaykum
why is that some ulama have accepted the fact that you can wear English clothing but then remain so strict about the wearing of a tie ?….surely the reason was mushabaha but at this moment it’s not mushabaha with kufaaar ?

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

Your statement creates an impression that English clothing is completely permissible. That is not so. Shariah encourages us to don the sunnah attire. Furthermore, Shariah has stipulated the following guidelines for all types of clothing:

  1. The garment is not made of silk (for men) [1]
  2. The garment covers the awrah of the body
  3. Men don’t wear clothing of women, and women don’t wear the clothing of men
  4. The lower garment is not below the ankles (for men)
  5. The garment is not worn out of pride and is not extravagant
  6. The garment should not be tight that it shows the shape of the body
  7. The garment is not worn to imitate non-believers[2].
  8. When donning English attire, the above rules should also be maintained. The ruling of the tie is analogues to the pants and shirt as it is common and not specific to Christians or a symbol of Christianity[3].

Allama Thanvi (rahimahullah) was asked:

ایک صاحب نے عرض کیا کی جو شخص لندن می مسلمان ہو اور وہاں کوٹ پتلون پہنے تو تشبہ ہو گا یا نہی؟ فرما یا کی تشبہ نہی ہو گا کیونکیہ وہا یہ نہی سمجہا جا تا کیہ یہ غیر قوم کا لباس ہے۔ اگر یہاں پر بہی کوٹ پتلون عام ہو جا تے کہ زہن سے خصوصیت جا تی رہے تو ممنوع نہ ہو گا۔ ( فقہ حنفی کے اصول و ضوابط، ص154)

A Muslim living in London, if he were to wear pants and shirt [western clothing] would it be regarded as tashabuh [imitation]? He replied: it will not be regarded as tashabuh [imitation] since [in those countries] it is not regarded as a clothing of another  sect….if in our country pants and shirt [western clothing] becomes rife to such extent that is no longer regarded as a particular group/sect clothing, then it will be permissible. [Fiqh Hanafi ke Usool wa Dawabit]

And Allah Ta’āla Knows Best

Hafizurrahman Fatehmahomed

Student Darul Iftaa
Netherlands

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

[1] Taqreer Tirmizi, Mufti Taqi Usmani, v2, pg330-331

Aap ke masaail our un ka hal – v8, pg369-370

[2]

اس سے معلوم ہوا کہ اہل باطل کی طرف میلان حرام ہے اور اس کے ساتہ ایک قاعدہ ملا لیا جاۓ کہ تشبہ بدون رکون اور میلان قلبی کے نہیں ہوتا- تشبہ جب کبہی پایاجاۓ گا رکون کے ساتہ پایا جاۓگا- یعنی لازم ہے کہ اس کی طرف رکون ہو- اولا رکون ہوتا ہے پہر تشبہ ہوتاہے- قلب میں اولا اس کی عظمت ہو تی ہے اور اس کے استحسان کا درجہ پیدا ہوتاہے اور اس کی میلان ہو تا ہے۔ اس کے اثر سے تشبہ ہو تا ہے (فقہ حنفی کے اصول و ضوابط،ص149)

تشبہ بالکفار امور مذہبیہ میں تو حرام ہے اور شعار قومی میں مکروہ تحرمی ہے۔ باقی ایجادات اور اور انتظامات میں جائز ہے (فقہ حنفی کے اصول و ضوابط،ص152)

البتہ تشبہ اور مشابہت میں فرق ہے اس کو سمجہ لینا چاہۓ۔تشبہ اس کو کہتے ہیں کہ باقاعدہ قصد اور اختیار سے آدمی دوسری ملت والے کے مشابہ بننے کی کوشش کرے تاکہ میں ان جیسا نظر آؤں، یہ تو ناجائز اور حرام ہے۔ اور دوسری چیز ہے مشابہت وہ یہ ہے کہ ان جیسا بننے کا قصد اور ارادہ تو نہیں تہا لیکن اس لباس کے ذریعہ بلا قصد ان کے ساتہ مشابہت ہو گئ ۔ یہ مشابہت حرام تو نہیں ہے مکروہ تنزیہی ہے۔ اس لۓ حتی اللمکان مشابہت سے بہی بچنے کی کوشش کرنی چاہۓ-  (تقریر ترمذی،ج2،ص332)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 624)

فَإِنَّ التَّشَبُّهَ بِهِمْ لَا يُكْرَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ، بَلْ فِي الْمَذْمُومِ وَفِيمَا يُقْصَدُ بِهِ التَّشَبُّهُ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 624)

 قَالَ هِشَامٌ: رَأَيْت عَلَى أَبِي يُوسُفَ نَعْلَيْنِ مَخْصُوفِينَ بِمَسَامِيرَ، فَقُلْت: أَتَرَى بِهَذَا الْحَدِيدِ بَأْسًا؟ قَالَ لَا قُلْت: سُفْيَانُ وَثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ كَرِهَا ذَلِكَ لِأَنَّ فِيهِ تَشَبُّهًا بِالرُّهْبَانِ؛ فَقَالَ «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِي لَهَا شَعْرٌ» وَإِنَّهَا مِنْ لِبَاسِ الرُّهْبَانِ. فَقَدْ أَشَارَ إلَى أَنَّ صُورَةَ الْمُشَابَهَةِ فِيمَا تَعَلَّقَ بِهِ صَلَاحُ الْعِبَادِ لَا يَضُرُّ،

فتح الباري لابن حجر (10/ 275)

وَإِنَّمَا يَصْلُحُ الِاسْتِدْلَالُ بِقِصَّةِ الْيَهُودِ فِي الْوَقْتِ الَّذِي تَكُونُ الطَّيَالِسَةُ مِنْ شِعَارِهِمْ وَقَدِ ارْتَفَعَ ذَلِكَ فِي هَذِهِ الْأَزْمِنَةِ فَصَارَ دَاخِلًا فِي عُمُوم الْمُبَاح

[3] Taqrir Tirmizi, V2, p332

حکم لباس کفار در لندن وغیرہ؟

جواب: میں اس باب میں یہ سمجھے ہوۓ ہوں کہ جس جگہ یہ لباس قومی ہے جیسے ہندوستان میں وہاں اس کا پہننا من تشبہ بقوم میں داخل ہوتا ہے، اور جہاں ملکی ہے جس کی علامت یہ ہے کہ وہاں سب قومیں اور سب مذاہب کے لوگ ایک ہی لباس پہنتے ہیں وہاں پہننا کچھ حرج نہیں اب اس معیار پر آپ وہاں کی حالت خود ملاحظ فرمائیں

امداد الفتاوی (268/4) مکتبہ دار العلوم کراچی

تشبہ بالکفار کی چند صورتیں ہیں:

1)          فطری امور میں مشابہت مثلا کھانا پینا چلنا پھرنا سونا لیٹنا صفائی رکھنا وغیرہ یہ مشابہت حرام نہیں قال في الدر فإن التشبه بهم لا يكره في كل شيء بل في المذموم وفيما يقصد به التشبه كما في البحر اهـ قال الشامي تحت قوله لا يكره في كل شيء فإنا نأكل ونشرب كما يفعلون اهـ

2)          عادات میں مشابہت مثلا جس ہیئت سے وہ کھانا کھاتے ہیں اسی ہیئت سے کھانا یا لباس ان کی وضع پر پہننا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ہماری کوئی خاص ضع پہلے سے ہو اور کفار نے بھی اس کو اختیار کر لیا ہو، خواہ ہمارے اتباع کرکے یا ویسے ہی اس صورت میں یہ مشابہت اتفاقیہ ہے اور اگر ہماری وضع پہلے سے جدا ہو اور اس کو چھوڑ کر ہم کفار کی وضع اختیار کریں یہ ناجائز ہے، اگر ان کے مشابہت کا قصد بھی ہے تب تو کراہت تحریمی ہے اور اگر مشابہت کا قصد نہیں ہے بلکہ اس لباس ووضع کو کسی مصلحت سے اختیار کیا گیا ہے تو اس صورت میں تشبہ کا گناہ نہ ہوگا مگر چونکہ تشبہ کی صورت ہے اس لۓ کراھت تنزیہی سے خالی نہیں قال هشام رأيت على أبي يوسف نعلين مخرفين بمسامير فقلت أترى بهذا الحديد بأسا قال لا قلت فسفيان وثور بن يزيد كرها ذلك لأن فيه تشبها بالرهبان فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبس النعال التي لها شعر وإنها من لباس الرهبان فقد أشار إلى أن صورة المشابهة فيما تعلق به صلاح العباد لا يضر فإن الأرض مما لا يمكن قطع المسافة البعيدة فيها إلا بهذا النوع اهـ قلت وفعله عليه السلام محمول على بيان الجواز إذا كان بدون القصد

مگر چونکہ آجکل عوام جواز کے لۓ بہانے ڈھوندھتے ہیں، ان کا قصد تشبہ ہی کا ہوتا ہے اس لۓ اکثر احتیاط کے لۓ عادات میں بھی تشبہ سے منع کیا جاتا ہے، خواہ تشبہ کا قصد ہو یا نہ ہو،

3)          ان امور میں تشبہ جو کفار کا مذہبی شعار یا دینی رسم اور قومی رواج ہے جیسے زنار وغیرہ پہننا، یا مجوس کی خاص ٹوپی جو ان کے مذہب کا شعار ہے اس میں تشبہ حرام بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے، عالمگیریہ وغیرہ میں اس کی تصریح ہے

امداد الاحکام (286/1) مکتبہ دار العلوم کراچی

The source link of this answer has been removed. It was originally collected from Answerstofatawa.com, which no longer functions.

This answer was collected from AnswersToFatawa.com, which no longer exists. It was established by Moulana Hafizurrahman Fatehmahomed. He graduated from Jamiatul Ilm Wal Huda, Blackburn, UK with a distinction in Alimiyyah degree. He thereafter traveled to Darul Iftaa Mahmudiyyah, Durban, South Africa, to train as a Mufti under Mufti Ebrahim Desai (rah) and Mufti Husain Kadodia.

Read answers with similar topics: