Home » Hanafi Fiqh » AnswersToFatawa » Is it permissible to takeout a Medical insurance

Is it permissible to takeout a Medical insurance

Answered as per Hanafi Fiqh by AnswersToFatawa

Salam wa alaykum sh.

I follow the Hanafi Madhab. In the Netherlands it is mandatory to be insured for healthcare. Health care providers also compete with each other in providing better care. You can opt for additional modules, that are optional, so you are extra insured for physiotherapy, dentistry,  prescription glasses etc. etc.

If you are not insured, you will have to pay for you medicine on your own accord. However, every year the insurance is fixed with an “own risk” policy. As of 2016 it has been fixed for € 385,-. In effect, you are actually paying for your pre-scripted medicine up to 385 euros (people with a chronic condition may be, after assessment, compensated for approx € 50,-). The average person, will spend up to 50-100 euro’s out of his own pocket per year. The prizes of prescription medicines vary a lot, as there are competitive brands. For a detailed overview you can check:  https://www.medicijnkosten.nl/

It is also noteworthy to note that, since approximately 8/10 people in the Netherlands experience some form of back problems and physiotherapy sessions go for approx € 30,- per session. Sessions may vary from 5-10 consecutive sessions. These sessions may be covered as of the 21th session per and as long as it is chronic. However, with the optional module, you get covered from the beginning of your sessions.

When it comes to dentistry and teeth-care, prizes are fixed. For a detailed overview what the prizes are for visiting a dentist, you can check:  http://www.tandarts.nl/tandartstarieven/kosten-behandeling

Lastly, there is also the option of “gemoedsbezwaard” (principally burdened), where you can refuse insurance wholeheartedly. You can read more about it here: https://nl.wikipedia.org/wiki/Gemoedsbezwaard

Is it allowed to be insured for the mandatory module? And what about the optional modules?

Salam wa alaykum and kind regards,

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

It is impermissible to take out medical insurance as it involves riba (interest) and qimaar (gambling). The client pays for example a premium of $250 a month. In the case of an predicament, the money that is paid out by the insurance company is far greater than the premiums paid by the client which is tantamount to riba (interest).

Likewise, It is unknown whether or not the client will be involved in an accident in the future.  The client pays to secure himself from any uncertain accident in the future which is qimaar[1].

Therefore, the ideal situation would be that a person abstains from taking out any type of insurance. However, if one does take out any medical insurance due to a genuine need (i.e. a person is unable to pay for medical costs due to a low income)[2], he will be excused[3]. However, since there is an apparent violation of Shari`ah in doing so, he should also make istighfaar.

And Allah Ta’āla Knows Best

Hafizurrahman Fatehmahomed

Student Darul Iftaa
Netherlands

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai

[1]

المبسوط للسرخسي (12/ 89)

تَعْلِيقُ التَّمْلِيكِ بِالْخَطَرِ

[2]

(427/5) فتاوی دار العلوم زکریا- زمزم پبلشر

میڈکل ایڈ جو آج کل غیر مسلم ممالک میں رواج پذیر ہے عقد اجارہ کی حیثیت سے جائز ہونا چاہیے کیونکے اس عقد کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک فریق مخصوص ومتعین رقم دیتا ہے اور دوسرا فریق اس کے علاج کی ذمہ داری اٹھاتا ہے،

جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ کمپنی جو عقد ضمان کی وجہ سے ہر ماہ وصول کرتی ہے اگرچہ رقم دینے والا بیمار نہ ہو پھر بھی اس رقم کا لینا درست ہے جیسا کہ عقد موالات میں مذکور ہوا کہ جنایت نہ کرنے کے باوجود میراث ملتی ہے اور فقہائ نے میراث کا لینا درست قرار دیا ہے۔

میڈکل ایڈ کی وہ صورت جس میں شخص رقم وصول کرتا ہے یہ صورت قطعا نا جائز ہے کہ علاھ وغیرہ کیلئے ان سے رقم وصول کیجائے اس لئے کہ ملنے والی رقم لامحالہ آپ کی جمع کردہ رقم سے زائد ہوگی اور جو زیادتی آپ وصول کریںگے وہ کسی چیز کے عوض میں نہیں ہے بلکہ آم کی رقم پر اضافی رقم صریح سود کے زمرہ میں داخل ہو کر ناجائز ہوگی۔

فتاوی دار الافتاء دار العلوم دیوبند – نمبر – 5181

میڈیکل انشورنس میں قمار (جوا) کے معنی پائے جاتے ہیں، اس لیے میڈیکل انشورنس کرانا شرعاً ناجائز ہے۔

مولانا محی الدین غازی، مولانا نیاز احمد اور مولانا عطاء اللہ قاسمی لکہتے ہیں، جن ممالک میں میڈیکل انشورنس  وہا کے شہریوں یا وہاں جانے والوں کے لۓ لازم کردیا گیا ہے، ان ملکوں میں میڈیکل انشورنس کرانا مجبوری ہے، اس لۓ بوجہ مجبوری کے بقدر گنجائش نکل سکتی ہے، اور بمار ہو جانے کی صورت میں انشورنس کی سہولت سے فائدہ اٹہانا بوجہ مجبوری درست ہو گا (جدید فقہی مباحث، ج23، ص34 )

مولانا خور شید اعظمی لکہتے ہیں: اجباری یا لازمی انشورنس جسے حکومتیں ضروری قرار دیتی ہیں جائز ہے بمنزلہ ٹیکس ہے جو حکومت کو ادا کیا جاتا ہے (جدید فقہی مباحث، ج23، ص34 )

مولانا سلطان احمد اصلاحی لکہتے ہیں: جن ممالک میڈیکل انشورنس وہاں کے شہریوں کے لۓ لازم کردیا گیا ہے وہاں یہ انشورنس کی اس سہولت سے فائدہ اٹہایا جاسکتا ہے- (جدید فقہی مباحث، ج23، ص35 )

عمومی احوال میں صحت بیمہ کرانا شرعی اصولوں کے خلاف ہے، اس لۓ ناجائز ہے، صحت بیمہ کے عقد کا تجزیہ کیا جاۓ تو یہ کئ ممنوع چیزوں پر مشتمل ہے :

1 – عاقد کی مستقل میں بیماری موہوم ہے جو تقاضاۓ عقد کے خلاف ہے –

2 – عاقد کے بیمار ہونے کی صورت میں جمع کی گئ رقم سے اگر زائد صرفہ علاج پر آتا ہے تو یہ سود ہے اور اگر عاقد بمار نہیں ہوا تو جمع شدہ رقم سے ہاتہ دہو بیٹہا، یہ میسر و جوا ہے، اس کے علاوہ  اس عقد میں دھوکہ بہی ہے تو سود میسر  و غرر پاۓ جانے کے باعث صحت بیمہ کی اجازت عمومی احوال میں نہیں دی جاسکتی  (جدید فقہی مباحث، ج23، ص136 )

[2]

{يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ } [البقرة: 185]

{وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ } [الحج: 78]

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 64)

الْمَشَقَّةُ تَجْلُبُ التَّيْسِيرَ

السَّادِسُ: الْعُسْرُ وَعُمُومُ الْبَلْوَى الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 64)    أَسْبَابَ التَّخْفِيفِ

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 72)

أَنَّ الْأَمْرَ إذَا ضَاقَ اتَّسَعَ، وَإِذَا اتَّسَعَ ضَاقَ

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

مَا أُبِيحَ لِلضَّرُورَةِ يُقَدَّرُ بِقَدْرِهَا

 (25/7) احسن الفتاوی

جب کہ بیمہ طیب خاطر کی وجہ سے نہ ہو بلکہ حکومت کی طرف سے ہو تو اس صورت میں بیمہ لینا درست ہوگا، لیکن بسورت حادثہ جمع کردہ رقم سے زائد واجب التصدق ہے۔

(309/6) جامع الفتاوی- ادارہ تالیفات اشرفیہ

بیمہ کی جو موجودہ صورتیں رائج ہیں وہ شرعی نقطہ نظرسےصحیح نہیں بلکہ قمار اور جوا کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ اس لئے اپنے اختیار سے بیمہ کرانا جائز نہیں اور اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے بیمہ کرانا پڑے تو اپنی ادا کردہ رقم سے زیادہ وصول کرنا درست نہیں چونکہ بیمہ کا کاروبار درست نہیں اس لئے بیمہ کمپنی میں ملازمت بھی صحیح نہیں۔

(312/6) جامع الفتاوی- ادارہ تالیفات اشرفیہ

بیمہ سود وقمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو اسی پر اکتفائ کیا جائے۔

( فتاوی عثمانی، ج3، ص314 )

انشورنس سود اور قمار پر مشتمل ہو نے کی بناء پر بالکل حرام ہے، البتہ جو انشورنس حکومت کی طرف سے لازمی ہو، مثلا موٹر وغیرہ کا بیمہ، اس کو مجبورا کرا سکتے ہیں، مگر جب رقم ملی تو صرف اتنی رقم ملے تو صرف اتنی رقم خود استعمال کر سکتے ہیں جتنی خود داخل کی تہی، اس سے زائد نہیں

(فتاوی محمودیہ، ج16، ص387، جامعہ فاروقیہ )

بیمہ میں سود بہی ہے اور جوا بہی یہ دونوں جیزیں ممنوع ہیں، بیمہ بہی ممنوع ہے، لیکن لیکن اگر کوئی شخص ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کراۓ جان و  مال کی حفاظت ہی نہ ہو سکتی ہو، یا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانا درست ہے –

(جدید فقہی مسائل، ج4، ص124)

انشورنس کی وہ تمام صوتیں جن میں سرکاری قانون کے تحت انشورنس لازمی ہے جائز ہوں گی، جیسے بین ملکی تجارت میں درآمد و برآمد کے لۓ، کہ اس میں انشورنس کرانے والے کی اختیار کو دخل نیہیں –

(نظام الفتاوی، ج2، ص487)

سرکاری طور پر جبرا جو روپیہ حکومت بیمہ کی نام پر کاٹ لیٹی ہے وہ روپیہ اور اس میں جتنا ملا کردے وہ سب بہی ناجائز نہیں ہے، لے سکتے ہیں اور اپنے کام میں خرچ کر سکتے ہیں –

(جدید فقہی مباحث، ج4، ص485 )

معاملات التامين الاسلامي مع تطبيقات عملية لشركات التامين الاسلامي، ص203،  الدكتور صالح العلي – دار النوادر

إذا أصدرت الدولة نظاما يلزم أصحاب السيارات بالتامين من المسؤولية المدنية الناشئة عن الحوادث السيارات، وجب عليهم الالزام بهذا النظام، و دفع أقساط التأمين، و حرم عليهم التهرب منه،

معاملات التامين الاسلامي مع تطبيقات عملية لشركات التامين الاسلامي، ص205،  الدكتور صالح العلي – دار النوادر

أما فيما يتعلق بالحكم الشرعي للإلزام بالتأمين علي حوادث السيارات، فإن من حق ولي الأمر إلزام الناس به، تطبيقا لمبدأ السياسية الشرعية، و استنادا إلي قاعدة: تصرف الامام علي الرعية منوط بالمصلحة، أما عن مشروعية الالتزام بالتأمين الاجباري، فهو واجب علي الأفراد، امتثالا لقول الله تعالي: ( و اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولي الامر منكم (النساء : 59) و الله اعلم –

معاملات التامين الاسلامي مع تطبيقات عملية لشركات التامين الاسلامي، ص204-205،  الدكتور صالح العلي – دار النوادر

عند تطبيق هذا النظام لايخلو حال المكلف من أحد أمرين:  إما أن يدفع أقساط التأمين، أو يعد مخالفا للنظام مع وقوع العقوبة عليه باعتباره متهربا، و لا ريب أن الأول أهون ضررا، فوجب عليه درء المفاسد الأعلي –

[3]

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73)

مَا أُبِيحَ لِلضَّرُورَةِ يُقَدَّرُ بِقَدْرِهَا

The source link of this answer has been removed. It was originally collected from Answerstofatawa.com, which no longer functions.

This answer was collected from AnswersToFatawa.com, which no longer exists. It was established by Moulana Hafizurrahman Fatehmahomed. He graduated from Jamiatul Ilm Wal Huda, Blackburn, UK with a distinction in Alimiyyah degree. He thereafter traveled to Darul Iftaa Mahmudiyyah, Durban, South Africa, to train as a Mufti under Mufti Ebrahim Desai (rah) and Mufti Husain Kadodia.

Read answers with similar topics: