Home » Hanafi Fiqh » Askimam.org » If one cannot practice Islam freely in their current place of residence and there isn’t an Islamic state, then what ruling would apply?

If one cannot practice Islam freely in their current place of residence and there isn’t an Islamic state, then what ruling would apply?

salaam alaykum Dear Respected Mufti my question is regarding the fiqh of hijrah. What is the ruling if there isn’t an islamic state or a country or place which implements the shariah. if one cannot practice islam freely in their current place of residence and there isn’t an islamic state, then what ruling would apply? would it be so that you find a place where they are trying to implement shariah and muslims are dominant ? jazakAllah

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

If a person is able to freely practise Islam in a particular area/country and has no fear of his life, wealth or dignity, then he should remain in his country and practice Islam. He should use the opportunity to propagate Islam to the best of his ability, as propagating Islam helps one strengthen his Iman and practice on Iman. [1]

It can safely be said according to the political climate around the world; Muslims are able to practice and propagate Islam freely in Non-Muslim countries, like the USA, UK, Australia etc. Muslim minorities in Non-Muslim countries should value such an opportunity and avoid any irresponsible conduct and attitude.

And Allah Ta’āla Knows Best

Safwaan Ibn Ml Ahmed Ibn Ibrahim  

Student Darul Iftaa
Limbe, Malawi

Checked and Approved by,
Mufti Ebrahim Desai.

____________________________________

 

احسن الفتاوی (6/11) – سعید[1]

الجواب: جہاں دین یا جان یا عزت یا مال محفوظ نہ ہو وہاں سے ہجرت کرنا فرض ہے، مطلق دار الحرب ہونا موجب ہجرت نہیں، اگر برما میں مسلمانوں کی جان یا مال محفوظ نہیں، یا نماز، روزہ قربانی وغیرہ شعائر اسلام پر پابندی ہو تو ہجرت فرض ہے، ۔۔۔

 

(6/21)

اسلامی ملک کی تعریف:

جس ملک میں اگرچہ عملا احکام اسلام کا نفاذ نہ ہو مگر تنفیذ احکام پر قدرت ہو وہ دار الاسلام ہے، اس معنی سے اسے اسلامی ملک بھی کہا جاسکتا ہے مگر ایسے ملک کی حکومت کو اس وقت تک حکومت اسلامیہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ وہ احکام اسلام کی تنفیذ نہ کرے۔

 

دار الامن کی تعریف:

جہاں احکام اسلام کی تنفیذ پر قدرت نہ ہو وہ دار الحرب ہے، دار الحرب میں اگر مسلمانوں کی جان، مال اور عزت محفوظ ہو اور عبادات محضہ پر کوئی پابندی نہ ہو تو یہ دار الامن ہے۔

 

کتاب الفتاوی (6/53) -زمزم

ھندوستانی مسلمان اور ہجرت:

الجواب: اگر دنیا کے کسی خطہ میں احکام دین پر عمل کرنا یا لوگوں تک دین کو پہنچانا ممکن نہ رہے اور کسی دوسرے علاقہ میں ان کو پناہ مل سکتی ہو تب ہجرت واجب ہوتی ہے، مکہ میں مسلمانوں کو علی الاعلان نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی، اور بلا کسی جبر و تحریص و دباؤ کے تبلیغ اسلام کی بھی ممانعت کردی گئی تھی، نیز مدینہ کے لوگ مسلمانوں کو پناہ دینے کیلئے تیار تھے، اس لئے ہجرت واجب قرار دی گئی، ہندوستان کے حالات خدانخواستہ ایسے نہیں ہیں، یہاں دستور و قانون کے تحت ہم کرایہ دار نہیں، بلکہ شریک کار ہیں، ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے، ملک کے بہت سے علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اور یہاں کے چپے چپے پر اسلام کے کے نقوش ثبت ہیں، اور ۔۔۔۔

 

فتاوی رحیمیہ (10/ 233) – الاشاعت

دور حاضر میں ہجرت فرض ہے یا نہیں؟

الجواب: اس زمانہ میں بھی جہاں کفار کا زور ہے اور احکام شرعیہ آزادی کے ساتھ ادا نہ کئے جاسکتے ہوں تو ترک وطن کرکے اسلامی مملکت میں چلے جانا ضروری ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں جب تک مکہ فتح نہ ہوا تھا اور وہاں کفار کا زور تھا اس جگہ سے ہجرت ضروری تھی اور اس کے لئے تاکید بھی کی گئی، چناچہ صحابہ ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تھے، لیکن جب مکہ فتح ہوا تو حکم ہوا کہ اب ہجرت کی ضرورت نیہں، ۔۔۔

 

فتاوی محمودیہ (21/404-402) – فاروقیہ

الجواب: جو شخص کسی مقام پر رہ کر احکام اسلام بجالاتا ہو، کوئی رکاوت غیر کی طرف سے نہ ہو، اس کے ذمہ ہجرت نہیں، جو شخص اپنی جگہ احکام اسلام بجالانے پر قادر نہیں، غیر کی طرف سے رکاوت ہے اور کسی دوسرے پر امن مام پر جانے کی قدرت رکھتاہے اور وہاں جاکر احکام اسلام بجالانے سے کوئی رکاوت نہیں، اس کے ذمہ ہجرت ہے۔

 

(4/634)

 

(4/40-637)

(ب) ۔۔۔ جس مقام پر کوئی شخص اپنے دین، نفس، عزت، عیال، مال کی حفاظت پر قادر نہ ہو اور شعائر اسلام پر کما یجب عمل نہ کرسکتا ہو اور کسی دوسری جگہ پر جاکر قدرت حاصل ہوسکتی ہو اور راستہ بھی مامون ہو تو اسکے ذمہ ہجرت واجب ہوتی ہے، اور اسمیں یہ ضروری نہیں کہ اول مقام دارالحرب اور دوسری جگہ دارالاسلام ہی ہو، بلکہ اگر دار الاسلام میں کسی وقت یہ دشواری پیش آئے اور دار الحرب میں نہ ہو تو ایسے دار الاسلام سے ہجرت کرکے دارالحرب میں آنا ضروری ہوگا۔

۔۔۔ بلا تحقیق اور بغیر غور و خوض کے محض ہنگامی حالات سے متاثر ہو کر جلدی رائے قائم کرنے سے بسا اوقات پشیمانی ہوتی ہے اور مصائب میں بجائے کمی کے اضافہ ہو جاتا ہے اور آجکل روئے زمین پر علی منھاج النبوۃ کسی جگہ بھی حکومت موجود نہیں اور جو لوگ جلد ہی بغیر تحقیق و غور کے چلے گئے تھے کثیر تعداد میں پریشان ہوکر آرہے ہیں۔ 

This answer was collected from Askimam.org, which is operated under the supervision of Mufti Ebrahim Desai from South Africa.

Read answers with similar topics: